خبریں/تبصرے

جموں کشمیر: آٹے کی قیمتوں میں یکمشت 1200 روپے اضافہ، عوام سراپا احتجاج

راولاکوٹ (نامہ نگار) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے محکمہ خوراک نے سرکاری آٹے اور گندم کی قیمتوں میں یکمشت 35 فیصد کے قریب، یعنی فی 40 کلو گرام 1200 روپے کا اضافہ کر دیا ہے، جس کے بعد نئی قیمت 3670 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔ پرائیویٹ آٹا مارکیٹ میں 6000 روپے فی 40 کلو گرام تک پہنچ گیا ہے۔

دوسری طرف سرکاری آٹے کی مارکیٹ میں دستیابی بھی بہت کم کرتے ہوئے 50 فیصد سے زائد سرکاری آٹا اور گندم پنجاب، خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں میں سمگل کر کے فروخت کئے جانیکا انکشاف ہوا ہے۔

شہریوں نے آٹے کی قیمتوں میں یکمشت بھاری اضافے اور آٹے کی فرہامی میں کمی کو ظلم قرار دیتے ہوئے خود رو احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ضلع پونچھ میں مختلف مقامات سرکاری ڈپوؤں پر تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ سڑکیں بند کر کے احتجاج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ آج پیر کے روز پونچھ ڈویژن کے مختلف مقامات سمیت مظفرآباد، کوٹلی، میرپور اور دیگر اضلاع میں مختلف مقامات پر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انجمن تاجران کی جانب سے بھی ریاست گیر احتجاج اور ہڑتال کی دھمکی دی ہے۔

حکومت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے پر نظر ثانی کئے جانے کا بھی امکان ہے۔ تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کی بجائے معمولی کمی کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں گندم پر سبسڈی کی فراہمی کے علاوہ سرکاری سطح پر پاسکو سے گندم خرید کر آٹا پسوائی کے بعد محکمہ خوراک کے ڈیلروں کے ذریعے شہریوں کو فراہم کرنے کا میکنزم بنایا گیا ہے۔ تاہم اس سبسڈی اور سستی گندم سے بھاری کرپشن کے علاوہ بڑی تعداد میں سستی گندم اور آٹا دیگر مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت کرنے کے ذریعے محکمہ خوراک کے افسران، فلور ملز مالکان اورٹھیکیدار بڑے منافعوں کی صورت لوٹ مار کے مرتکب ہوتے ہیں۔

معروف صحافی ملک عبدالحکیم کشمیری کی جانب سے جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور پاکستان کی وفاقی حکومت کے مابین بجٹ کی فراہمی پر تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ مقامی حکومت نے پاسکو کو 5 ارب روپے کی ادائیگی کیلئے رقم فراہم نہیں کی، جبکہ جون 2023ء تک 13 ارب روپے کے قریب رقم مزید ادا کرنی ہے۔ مقامی حکومت آٹا فروخت کرنے کے بعد بھی رقوم شفاف طریقے سے پاسکو کو ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماضی میں پاسکو سے مقامی حکومت 55 ہزار روپے فی ٹن گندم خرید کرتی تھی، تاہم اب وہ 1 لاکھ 39 ہزار روپے تک فی ٹن ہو گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس خطے کی آبادی 42 لاکھ 50 ہزار ہے، جبکہ 15 لاکھ کے قریب افراد بیرون ریاست آباد ہیں۔ 3 لاکھ کے قریب افراد بیرون ریاست سے اس خطے میں رہائش پذیر ہیں۔ یوں مجموعی طو رپر ا س خطے میں فی الحال 30 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ جن کی ضرورت سالانہ 3 لاکھ 72 ہزار ٹن گندم ہے۔

تاہم محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق اس خطے میں مقامی سطح پر 1 لاکھ 42 ہزار ٹن، جبکہ محکمہ خوراک کے مطابق 2 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار ہے، جو محکمہ خوراک سستے داموں خرید کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے سالانہ 3 سے ساڑھے 3 لاکھ ٹن گندم خریدی جاتی ہے۔ یوں مجموعی طور پر محکمہ خوراک 5 لاکھ ٹن سے زائد سالانہ گندم خریدتا ہے، جبکہ مجموعی آبادی کی ضرورت 3 لاکھ 72 ہزار ٹن گندم ہے۔

اس سب کے باوجود مارکیٹ میں سرکاری آٹا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے 50 فیصد سے زائد آبادی پرائیویٹ فلورملز کا مہنگا آٹا استعمال کرتی ہے۔

یوں 42 لاکھ آبادی کیلئے سستے داموں خریدی گئی گندم کا ایک بڑے حصہ وہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر لیا جاتا ہے، جبکہ آٹا پسوائی کے بعد بھی مارکیٹ میں 15 لاکھ کی آبادی کی ضرورت کے مطابق ہی فراہم کیا جاتا ہے، باقی آٹا بھی پرائیویٹ آٹے کے طورپر مہنگے داموں فروخت کر کے بھاری رقوم کمائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں آٹا ڈیلرز بھی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں۔ یوں سبسڈی سے ہی سالانہ 3 ارب روپے سے زائد کی رقم ایک مخصوص مافیا کی نذر ہو رہی ہے۔

حکومت نے ماضی میں بھی آٹے کی قیمتوں میں یکمشت 300 روپے فی من اضافہ کیا تھا۔ اس اضافے اور ایلوکیشن میں کٹوتی کے خلاف پونچھ ڈویژن میں ایک بڑی تحریک منظم ہوئی تھی۔ ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ حکومت نے ایکشن کمیٹیوں سے مذاکرات کے بعد قیمتوں میں 100 روپے کمی کر کے 200 روپے کا اضافہ برقرار رکھا تھا۔ موجودہ اضافے کے حوالے سے بھی شہریوں کا خیال ہے کہ حکومت نے اتنا بڑا اضافہ کیاہی اسی لئے ہے کہ احتجاج کے بعد چند سو روپے کمی کر کے عوام کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

شہریوں کے مطالبہ کیا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن منسوخ کیاجائے اور مارکیٹ میں آبادی کے تناسب سے آٹے کی ترسیل یقینی بنائی جائے، بصورت دیگر سپلائی ڈپو بھی نہیں کھلنے کئے جائیں گے اور تمام مرکزی شاہراہیں بند کرنے کے علاوہ سرکاری دفاترکو بھی تالے لائے جائیں گے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts