لاہور (جدوجہد رپورٹ) متعدد میڈیا واچ ڈاگز نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنیو الی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچین‘ پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے کی مذمت کی ہے۔ فلم کے کلپس کو بھارت میں آن لائن رسائی یا شیئر کرنے سے روکنے کیلئے ہنگامی اختیارات کے استعمال پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں، ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کے اس پابندی کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کو دستاویزی فلم کی سکریننگ کرنے سے روکنے کیلئے بھارتی حکومت نے جبر کا راستہ اختیار کیا اور طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ یونین کی طرف سے فلم کی سکریننگ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حکومت نے جامعہ کا انٹرنیٹ اور بجلی کا کنکشن منقطع کر دیا۔ تاہم طلبہ نے لیپ ٹاپ پر فلم دیکھ کر حکومتی فیصلے کے خلاف اپنے مزاحمت کا اظہار کیا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق ہفتے کے روز بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک مشیر نے کہا کہ ٹویٹر اور یو ٹیوب سے کہا گیا ہے کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم’انڈیا: دی مودی کوسچن‘ کو شیئر کرنے والے لنکس کو بلاک کر دیں، جسے حکومت نے پروپیگنڈا پیس کا نام دیا تھا۔
یہ دستاویزی فلم 2002ء میں نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں فسادات کے دوران وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی کی قیادت پر سوال کرتی ہے۔ اس وقت تقریباً 1000 لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 2500 سے زائد تھی۔
بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے بدھ کے روز دستاویزی فلم کو بلاک کرنے کیلئے ہنگامی قوانین کی درخواست کرنے والے حکام کے حوالے سے اپنے خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے 2021ء کے آئی ٹی رولز حکومت کو آن لائن مواد اور نیوز آؤٹ لیٹس کو کنٹرول اور سنسر کرنے کیلئے وسیع اور غیر چیک شدہ اختیارات کی اجازت دیتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ”مودی حکومت واضح طور پر آئی ٹی رولز کے تحت ہنگامی اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، تاکہ اس کی پالیسیوں پر ہر طرح کی تنقید کو سزا دی جا سکے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”ہم نجی پلیٹ فارمز پر زور دیتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے حد سے زیادہ وسیع اور غیر منصفانہ سنسرشپ کو ماننے سے انکار کریں۔ آن لائن پلیٹ فارمز کو یقینی بنانا چاہیے کہ سنسرشپ کے مطالبات کی تعمیل بھارت میں ناقدین، صحافیوں اور کارکنوں کو خاموش کرنے کیلئے حکومت کی جاری مہم میں مدد نہیں کرتی ہے۔“
گزشتہ ہفتے حکومت نے آئی ٹی رولز میں ایک ترمیم پیش کی جس کے تحت پلیٹ فارمز کو حکومت کی طرف سے جعلی یا غلط سمجھے جانے والے مواد کو ہٹانے کی ضرورت ہے تاکہ قومی خودمختاری اور امن عامہ کی حفاظت کی جا سکے۔
یہ تازہ ترین اقدام 2014ء میں مودی اور ان کی ہندو انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں آزادی صحافت پر وسیع حملے کا حصہ ہیں۔
پیر کے روز کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دستاویزی فلم کو بلاک کرنے کا حکم آزاد پریس پر حملے ہے، جو کہ ملک کے جمہوری نظریات کے بارے میں بیان کردہ وابستگی سے واضح طور پر متصادم ہے۔
سی پی جے کا کہنا تھا کہ ”حکام کو فوری طور پر دستاویزی فلم تک مکمل اور غیر محدود رسائی کو بحال کرنا چاہیے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت ان ضوابط کو واپس لینا چاہیے، جو آزادی صحافت اور آن لائن اظہار کی آزادی کو متاثر کرتے ہیں۔“
واضح رہے کہ بھارت بڑی آبادی کی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کیلئے بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز حکومت کی تمام پالیسیوں کو من و عن تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔
وال سٹریٹ جنرل نے 3 سال قبل رپورٹ کیا تھا کہ 5.7 ارب ڈالر کی مارکیٹ کی وجہ سے فیس بک بی جے پی حکومت کی جیب میں ہے۔
ٹویٹر کو ایک استثنا حاصل رہا ہے، جو ابھی تک بھارتی حکومت کے احکامات پر عملدرآمد سے کتراتا رہا ہے، تاہم حالیہ نئی ملکیت کو دیکھتے ہوئے یہ طے کرنا باقی ہے کہ آیا کمپنی کو اپنی اس پالیسی کو جاری رکھتی ہے یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔
مزاحمتی آوازیں
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی سکریننگ کے ایک دن بعد ملک بھر کے طلبہ نے ہر ریاست میں اس دستاویزی فلم کی سکریننگ کا اعلان کیا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹیوں میں سکریننگ کے راستے میں حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور بجلی کاٹ دی گئی تھی، حکومت کے حامیوں کی طرف سے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ تاہم طلبہ نے لیپ ٹاپ کے ذریعے فلم کی سکریننگ کی۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے طلبہ ونگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے جنرل سیکرٹری میوکھ بسواس نے کہا کہ ”وہ اختلافی آوازوں کو نہیں روک سکیں گے۔“
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق بدھ کی شام کو ایس ایف آئی کی جانب سے بی بی سی کی دستاویزی فلم کی شیڈول اسکریننگ سے قبل منگل کو نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی جانب سے غیر منظور شدہ طلبہ کے اجتماعات کے خلاف ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا۔
براڈکاسٹر کے مطابق اس کے بعد پولیس نے اسکریننگ سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے وہاں ایک درجن سے زائد طلبہ کو حراست میں لے لیا۔
دہلی پولیس نے فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا طلبہ کو حراست میں لیا گیا ہے یا نہیں، لیکن کہا کہ یونیورسٹی میں فسادات پر قابو پانے کیلئے پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ یہ تعیناتی 26 جنوری کو اسکریننگ اور بھارت کے یوم جمہوریہ دونوں کی وجہ سے امن و امان برقرار رکھنے کیلئے کی گئی تھی۔