لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ ماہر نے پیر کو ممالک پر زور دیا کہ وہ صنفی امتیاز کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دینے پر غور کریں، جس سے افغان خواتین کے خلاف سنگین اور منظم زیادتیوں کیلئے طالبان کو جوابدہ ٹھہرانے میں مدد ملے۔
’بیرنز‘ کے مطابق اگست 2021ء میں غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کو معزول کرنے کے بعد سے طالبان حکام نے ایک سخت قانون نافذ کیا ہے، جس میں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے، خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے، انہیں کسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روکا گیا ہے اور انہیں گھر سے باہر پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
رچرڈ بینیٹ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ ’یہ ضروری ہے کہ ہم پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔‘
اپنی تازہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے افغانستان کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کونسل کو بتایا کہ طالبان کے ’صنفی ظلم و ستم‘ کے اقدامات انسانیت کے خلاف جرم بن سکتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، منظم اور ادارہ جاتی امتیازی سلوک طالبان کے نظریے اور حکمرانی کا مرکز ہے، جو ان خدشات کو بھی جنم دیتا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کیلئے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے اصرار کیا کہ اس طرح کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مزید مطالعہ کی ضرورت ہے، یہ ابھی تک کوئی واضح بین الاقوامی جرم نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’صنفی امتیاز کو بین الاقوامی جرم کے طور پر ڈھالنا اس بات کو اجاگر کرے گا کہ دوسرے ملک اور وسیع تر بین الاقوامی برادری کا فرض ہے کہ وہ اس پر عمل کو ختم کرنے کیلئے موثر کاروائیاں کریں۔‘
رواداری حقوق گروپ کے سربراہ اور افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ شہرزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ’خواتین اکثر زندہ دفن ہونے اور سانس لینے کے بارے میں بات کرتی ہیں، لیکن پابندیوں اور سزاؤں کا سامنا کئے بغیر کچھ اور نہیں کر پاتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’طالبان نے افغانستان کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے عزائم، خوابوں اور صلاحیتوں کے اجتماعی قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔‘
اقوام متحدہ پہلے ہی طالبان کے تحت افغانستان میں ہونے والی صورتحال کو ’صنف کی بنیاد پر اپارتھائیڈ‘ (صنفی نسل پرستی) کے طور پر لیبل کر چکا ہے، لیکن اس اصطلاع کو فی الحال روم کے آئین کے تحت بدترین بین الاقوامی جرائم میں سے ایک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
بینیٹ اور دیگر نے پیر کو ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے تبدیل کرنے پر غور کریں۔
شہرزاد اکبر نے اس کال کی حمایت کرتے ہوئے کونسل پر زور دیا کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مسودہ کنونشن میں صنفی امتیاز کو شامل کرنے کی حمایت کرے۔