لاہور (جدوجہد رپورٹ) ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کیلئے جانے والی ٹائٹن آبدوز کے حادثے کو جس طرح عالمی میڈیا پرلمحہ بہ لمحہ کوریج دی گئی، اس کی نسبت یونان میں کشتی حادثہ میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں تارکین وطن کو بہت کم کوریج ملی ہے۔
’ڈیموکریسی ناؤ‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے یونان کے ساحل پر ایک اوور لوڈڈ ماہی گیری کی کشتی الٹنے سے 700 سے زائد تارکین وطن کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ ڈوبنے والے تارکین وطن کے زندہ بچنے کی توقعات کم ہونے کے باوجود تلاش اور بچاؤ کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ دوسری طرف یونانی کوسٹ گارڈ کو کشتی ڈوبنے سے پہلے مسافروں کو بچانے میں مدد کرنے میں ناکامی پر عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔
ان مہاجرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ زیادہ تر کا تعلق پاکستان، افغانستان، مصر، شام اور فلسطین سے تھا۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تارکین وطن کے اب تک کے سب سے مہلک جہاز کے ملبے میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس کہانی کو ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کیلئے ایک آبدوز میں سوار 5 مسافروں کی تلاش کے مقابلے میں بہت کم عوامی توجہ حاصل ہوئی ہے۔
ان پانچوں مسافروں کی امریکی کوسٹ گارڈ کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی کہ ان کی موت اتوار کو ہوئی تھی۔ اس سے کچھ دن پہلے کی وال ٹو وال میڈیا کوریج نے ان کی حالت زار کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کر دی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران 30 ہزار سے زائد مہاجرین بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم میڈیا کی جانب سے جس طرح اس معاملے کو معمولی رنگ دے کر دبانے کی کوشش کی ہے اور اس کے برعکس 5 مسافروں کی تلاش اور ہلاکت کی خبروں کو بہت نمایاں اور زیادہ جگہ دی گئی ہے، یہ سب طبقاتی تضادات کو نمایاں کر رہا ہے۔