لاہور (جدوجہد رپورٹ) یوکرین کے خلاف روس کی جنگ نے 23 جون کو ایک حیرت انگیز موڑ اختیار کیا، جب ویگنر پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے تعلق رکھنے والے روسی حکومت سے منسلک کرائے کی فوج کے ہزاروں فوجیوں نے واپس سرحد پار کر کے ماسکو کی طرف مارچ شروع کر دیا۔
ویگنر گروپ کے سربراہ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے قریبی ساتھی یوگینی پریگوزن نے اس کارروائی کو بغاوت کی کوشش کی بجائے ’مارچ فار جسٹس‘ (انصاف کیلئے مارچ) قرار دیا گیا۔
دوسری جانب صدر پوتن نے اس اقدام کو مسلح بغاوت قرار دیا اور غداری کے راستے پر چلنے والوں کو سزا دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
تقریباً ایک دہائی سے ویگنر گروپ روسی ریاست کے نیم فوجی ونگ کے طورپر کام کرتا آیا ہے۔ اس گروپ نے یوکرین کے ساتھ ساتھ افریقی ملکوں میں بھی جنگی جرائم کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ویگنر گروپ پرمشتمل قوتوں کا بڑا حصہ انتہائی دائیں بازو اور فاشسٹ نظریے کا حامل ہے۔
24 جون کو ایک معاہدے کے بعد بغاوت میں ملوث پریگوزن اور ویگنر افواج کے خلاف تمام الزامات ختم کر دیئے جائیں گے اور پریگوزن کو بیلاروس سفر کی اجازت دے دی جائے گی اور ویگنر گروپ کی فوجیں یوکرین واپس جائیں گی۔
ان واقعات کے حوالے سے روسی بائیں بازو کے رہنما الیگزینڈر زمیاتین کا کہنا ہے کہ یہ بغاوت ایک منطقی پیشرفت معلوم ہوتی ہے۔ تمام مبصرین پر یہ واضح تھا کہ صورتحال ایک ٹائم بم کی تھی، تاہم کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کب پھٹے گا؟
انکا کہنا تھا کہ ویگنر گروپ ایک پرائیویٹ آرمی ہے، جس کی قیادت ایک کرشماتی مہم جو شخص کر رہا ہے اور اس نے یوکرین کے ساتھ جنگ کے دوران بہت زیادہ وسائل اور میڈیا کوریج حاصل کی ہے۔ پریگوزن نے دیکھا کہ اشرافیہ اور فوج کے نچلے طبقے کے درمیان ایک اہم تضاد موجود ہے اور اس نے اس تضاد کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اندر جائیں۔
الیگزینڈر ماسکو میں ایک میونسپل ڈسٹرکٹ کونسل کے ایک سابق منتخب رکن ہیں، انہیں دو سال پرانی ایک فیس بک پوسٹ کی وجہ سے پتن حکومت نے گزشتہ سال انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے سے روک دیا تھا۔
انہوں نے حالیہ بغاوت کے حوالے سے انٹرویو میں کہا کہ ایسی بغاوتیں حقیقت میں اتنی کم نہیں ہوتیں، جتنی دکھائی جاتی ہیں۔ تاہم معاہدے کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ فریقین جلد ہی ایک معاہدہ پر پہنچ گئے کیونکہ انہیں احساس ہوا کہ ان کی پوزیشن بھی اتنی ہی کمزور ہے۔ پریگوزن ماسکو میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس نہ تو کوئی انتظامی آلہ تھا اور نہ ہی اس قدر مقبول حمایت موجود تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سول انتظامیہ کو تبدیل کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ کریملن ماسکو کے قریب اپنی افواج کے ساتھ پریگوزن کی فوج کو کچل سکتا تھا، لیکن سیاسی حمایت کے لحاظ سے اس طرح کی کارروائی بہت مہنگی پڑتی، کیونکہ پوتن کے بنیادی انتخابی حلقوں میں پریگوزن کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی ہے۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وقتی طور پر کچھ شرائط پر اتفاق کیا گیا ہے، جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پریگوزن کسی بھی وقت پتن کے دھوکے میں آکر مارا جائیگا۔
انکا کہنا تھا کہ پوتن ناقابل یقین حد تک کمزور ہو گئے ہیں، ان واقعات کے بعد پوتن نے اپنے آپ کو بغیر لباس کے بادشاہ کے طورپر بے نقاب کیا ہے۔ تاہم ابھی تک ان کی طاقت پر کوئی بڑی ضرب لگتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
روسی معاشرے میں ترقی پسندانہ عوامی ابھار کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مجھے ایسی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کے برعکس ہمنے دیکھا کہ کتنے لوگ ویگنر افواج کو سڑکوں پر نکل کر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ یہ سب پوتن حکومت کیلئے بہت برا ہے، لیکن یہ جنگ مخالف یا ترق پسند قوتوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ان لوگوں کا ایک چھوٹا سا اظہار ہے، جو ان لوگوں کی حمایت میں نکلے، جنہیں وہ اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ جنگ مخالف اور ترقی پسند خیالات کے حامل لوگوں کیلئے اس صورتحال نے وجود کو خطرہ لاحق ہونے اور فرار ہونے کی ضرورت کا احساس پیدا کیا ہے۔ وہ دعا گو تھے کہ ویگنر گروپ کی افواج پر اقتدار پر قبضہ نہ کریں اور ان کے گھر نہ آئیں۔
انکا کہنا تھا کہ اس تصادم میں دونوں قوتیں عوام کی اکثریت کیلئے انتہائی برائی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی ملک کو کسی خیر کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ اس لئے ترقی پسند اور جنگ مخالف سوچ رکھنے والے کسی بھی فریق کیساتھ ہمدردی نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگوں نے آمریت کو ختم کرنے کیلئے ایک ذریعہ کے طورپر بغاوت کی کامیابی کی امید کی ہے، لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ یہ باہر سے واضح نہیں ہو سکتا ہے، لیکن یہاں ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ روس اس محاذ آرائی میں صرف ہارے گا۔