لاہور(جدوجہد رپورٹ) ایک وقت میں فلسطینی جدوجہد آزادی کا حمایتی چین اب اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے اور سامراج مخالف ہونے کے دعوؤں کے باوجود چین کی فلسطینی ریاست کی حمایت محدود ہے۔
’جیکوبن‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 2000کی دہائی سے اسرائیل میں چینی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا اور چین اسرائیل کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت کار بن چکا ہے۔ چین کی اسرائیل کی ساتھ تجارت گزشتہ سال 24ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔ 2021-22میں چین نے اسرائیل کی درآمدات کے سب سے بڑے سورس کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل پہلی اور واحد غیر کمیونسٹ ریاست تھی، جس نے 1950میں قیام کے ایک سال بعد عوامی جمہوریہ چین کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ تاہم سرد جنگ کے عروج کے ساتھ ہی سفارتکاری کے امکانات کم ہو گئے اور چین نے فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اور فوجی تعلقات کو مضبوط کیا۔ 1955میں چین نے عرب مندوبین سے فلسطینی کاز کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ 1960کی دہائی کے وسط میں الفتح اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) کے رہنماؤں نے چین کا دورہ بھی کیا۔ اس وقت چین نے فلسطینیوں کو فوجی تربیت کی پیشکش بھی کی۔
ثقافتی انقلاب کا خاتمہ اور چین سوویت تقسیم چین اور اسرائیل کے درمیان غیر رسمی تعلقات کی بحالی کا باعث بنی۔ اسرائیل نے 1980کی دہائی میں چین کو فوجی ٹیکنالوجی برآمد کرنا شروع کی، جس کے بعد1992تک دونوں ملکوں کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات کی راہ ہموار ہو گئی۔ اس دوران چین نے 1988میں فلسطینی ریاست کو بھی تسلیم کیا۔
1989میں چین پر مغربی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل چین کیلئے مغربی فوجی ٹیکنالوجی کا اہم بیک ڈور بن گیا۔ 2000کی دہائی میں عالمی طاقت کے طور پر چین کے عروج نے دونوں ملکوں خی تجارت کو ہتھیاروں سے آگے بڑھایا اور ان کے باہمی معاشی انحصار کو مزید گہرا کیا۔ چین نے اسرائیل میں زراعت، ٹیکنالوجی، تعمیرات اور ونچر کیپیٹل میں بھاری سرمایہ کاری کرنا شروع کی۔
فوجی اور اقتصادی تعلقات کی ترقی نے چین کو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بارے میں اعتدال پسند موقف پر گامزن کیا۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی عوامی جنگ کی حمایت کی بجائے اب چین اسرائیلی ریاست کی سرپرستی اور دفاع کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
’جیکوبن‘ نے لکھا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے جواب میں گزشتہ ہفتے چین کے ’ایک آزاد فلسطینی ریاست‘ کے دفاع اور متعلقہ فریقین سے فوری طور پر دشمنی ختم کرنے کے اس مبہم مطالبے کو اس کے ریاستی حل کے عزم کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ مبصرین اس ابہام کو چین کی جانب سے اسرائیل کی مضبوطی سے پشتپناہی کرنے میں ہچکچاہٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم دو ریاستی حل ایک مختلف شکل میں فلسطینیوں پر اسرائیلی جبر کو جاری رکھنے کا ہی دوسرا نام ہے۔