خبریں/تبصرے

افغان پناہ گزینوں کا انخلا: عمر بھر کی کمائی بھی چھوڑ کر اجنبی سرزمین پر جائیں

لاہور(جدوجہد رپورٹ) افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کے دوران پاکستانی کاروباری افراد اور ریاستی حکام مال غنیمت سمیٹنے میں مشغول ہیں۔ دہائیوں سے پاکستان میں کاروبار کرنے والے افغان پناہ گزینوں کو کوڑیوں کے دام اپنی پراپرٹی اور کاروبار فروخت کرنے پڑ رہے ہیں۔

سرکاری طور پر حکومت پاکستان نے ہر خاندان کو صرف 50ہزار روپے اپنے ساتھ سرحد پار لے جانے کی اجازت دی ہے۔ بینک اکاؤنٹ نہ کھلوا سکنے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں پاکستان میں کمائے گئے سرمائے کو اپنے ساتھ نہیں لے جا پا رہے ہیں۔

’ڈان‘ کے مطابق ایک تاجر حبیب اللہ، جو گزشتہ40سال سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ افغانستان کی اجنبی سرزمین پر جا کر وہ اس رقم سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ تاہم اپنی محنت سے کمائی ہوئی چیزیں ساتھ رکھنے کی اجازت نہ دے کر ان کی یہ امید بھی توڑ دی گئی ہے۔

3اکتوبر کو حکومت پاکستان نے ایک اندازے کے مطابق 17لاکھ بغیر دستاویزات موجود پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کا کہا تھا۔ ان غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کو اکثر ایلین کہا جاتا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے تعاون سے پی او آر کارڈز 2006اور2007میں متعارف کروائے گئے تھے۔ اس پالیسی کے تحت2.15ملین سے زائد افغان پناہ گزینوں کو یہ کارڈ جاری کئے گئے تھے۔ یہ کارڈز دو سال کیلئے کارآمد تھے اور ہر دو سال بعد ان کی تجدید کرنا تھی۔ 2017میں حکومت پاکستان نے اس وقت کی افغان حکومت کے ساتھ مل کر ACCsمتعارف کروائے، جو ان لوگوں کو جاری کئے جانے تھے، جو کسی وجہ سے پی او آر کارڈ حاصل نہیں کر سکے۔ یو این ایچ سی آر کے تخمینہ کے مطابقACCکارڈ ہولڈرز کی تعداد تقریباً8لاکھ40ہزار ہے۔

ان کارڈز کے حامل لوگ بھی قانونی طور پر کام کاج نہیں کر سکتے۔ اگرچہ پی او آر کارڈ ہولڈر بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، تاہم مذکورہ اکاؤنٹ کو ہر دو سال بعد تجدید کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ کارڈ رکھنے والے اپنے نام سے کوئی کاروبار کھولنے یا چلانے کے بھی قابل نہیں تھے۔

کارڈ ہولڈر صحت اور تعلیم سمیت دیگر چند سہولیات حاصل کر سکتے تھے۔غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کے پاس کوئی سہولت نہیں تھی۔ اس لئے وہ زندہ رہنے کیلئے غیر رسمی یا غیر دستاویزی مزدوری کا انتخاب کرنے یا معمولی ملازمتوں پر بہت معمولی تنخواہ پر گزارہ کرنے پر مجبور تھے۔

حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد لاکھوں افغان پناہ گزین ایک مخمصے کا شکار ہیں۔ وہ ساری زندگی کا کام چھوڑ کر ایسے ملک میں بھیجے جا رہے ہیں، جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ابھی تک 2لاکھ50ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

پاکستا ن میں مقیم غیر رجسٹرڈ افغان شہری بینکنگ چینلز کے ذریعے کاروبار بھی نہیں چلا سکتے اور نہ ہی کوئی مالیاتی لین دین کر سکتے تھے۔ ایسے معاملات میں وہ پاکستانی فرنٹ مین یا کسی بھروسے والے شخص کی خدمات حاصل کرتے تھے۔

اب انہیں مال مویشی سمیت دیگر سامان ساتھ لے جانے سے روکا جا رہا ہے۔ اس طرح وہ اپنے چھوٹے کاروبار، مال مویشے وغیرہ انتہائی سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح مقامی بااثر اور کاروباری افراد ان کی اس مجبوری سے مالی غنیمت کے طو رپر فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔

ایک افغان تارک وطن کے مطابق جو مویشی 4لاکھ روپے میں فروخت ہوتے تھے، وہ اس وقت 1لاکھ روپے سے بھی کم میں فروخت ہو رہے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کے چیف کمشنر عباس خان کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے حکومت کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ ملک میں غیر قانونی طو رپر رہنے والے افراد کو انے کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجا جانا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ غیر رجسٹرڈ ہیں اور انہوں نے پاکستا میں جائیداد یا کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے تو ان کے پاس ان اثاثوں کا کوئی قانونی احاطہ نہیں ہے۔ اس طرح ان کی جائیداد اور کاروباری سرگرمیاں بھی غیر قانونی ہیں۔

ایک افغان پناہ گزین کے مطابق انہوں نے 30لاکھ روپے میں ریسٹورنٹ خریدا تھا، لیکن اب اسے کوئی 10لاکھ روپے میں بھی خریدنے کیلئے تیار نہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ مزید قیمت کم کی جائے۔

مچھر کالونی میں رہنے والے ایک افغان مہاجر نے 60لاکھ روپے سے زائد میں خریدی گئی دکان30لاکھ روپے میں فروخت کی ہے۔ تاہم وہ رقم بھی وہ اپنے ساتھ قانونی طور پر افغانستان نہیں لے جا سکتے ہیں۔

کراچی حیدرآباد موٹر وے پر واقع اپارٹمنٹس کے ایک بلاک الآصف اسکوائر پر برسوں سے افغانوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس علاقے کو منی کابل کا تخلص دیا گیا ہے۔ یہ علاقہ دکانوں، ریستورانوں سے بھرا ہوا ہے۔ تاہم کریک ڈاؤن کے بعد سے بہت سی دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔ مقامی فرنٹ مین بھی اب ان افغانوں سے بے دردی سے بھتہ لے رہے ہیں۔ ایک افغان خاتون نے کچھ سال پلے 52لاکھ روپے میں ایک پلاٹ خریدا تھا، جو انہیں 16لاکھ روپے میں بیچنا پڑا۔ سہراب گوٹھ، مچھر کالونی سمیت دیگر علاقوں میں بھی افغان پناہ گزینوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

ٹرانسپورٹ کی قیمتیں بھی کئی گنا زائد کر دی گئی ہیں۔ ایک خاندان کے مطابق ٹرانسپورٹ کرایوں میں تقریباً دگنااضافہ کر دیا گیا ہے۔

بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کی اکثریت کی جانب سے کئے گئے کاروباری لین دین میں اب قرض وصولی بھی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔ ایک افغان پناہ گزین کے ملک بھر میں کلائنٹس کے پاس 52لاکھ روپے ادھار موجود ہے، تاہم وہ اب اسے ادائیگیاں نہیں کر رہے ہیں۔

اگر کسی افغان نے کسی پاکستانی کو 40لاکھ روپے قرض دیا ہوا ہے تو وہ بھی بے بسی میں صرف آدھی رقم واپس مانگ رہا ہے، لیکن وہ بھی اسے نہیں دی جا رہی ہے۔

ایک وکیل کے مطابق تین مختلف لوگوں نے ان سے رابطہ کیا ہے، جن کے لوگوں کے پاس 30ملین روپے سے زائد کی رقم واجب الادا تھی۔ تاہم کریک ڈاؤن کی وجہ سے حوصلہ پا کر انہوں نے وہ رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دیوانی مقدمہ دائر ہونے کے باوجود عدالت میں سالوں لگ سکتے ہیں اور افغان پناہ گزینوں کے پاس اب اس ملک میں رہنے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے وہ قانونی راستہ بھی نہیں اختیار کر سکتے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts