خبریں/تبصرے

جامعہ کوٹلی میں طلبہ ایکشن کمیٹی قائم، 28 اکتوبر سے تحریک کا اعلان

کوٹلی (پ ر) جامعہ کوٹلی مین کیمپس میں تمام شعبوں کے طلبہ کا مشترکہ اجلاس منعقدہوا۔ اجلاس میں طلبہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ور معاشی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی مسائل سے بھرپور ہے اور ہمہ وقت عذابوں کا ایک تسلسل جاری ہے۔ مروجہ نظام مسائل حل کرنے میں مکمل ناکام ہوتا جا رہا۔ معاشی تنگدستی کے علاؤہ ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت جنگیں عدم استحکام مروجہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سماج کے ہر ایک شعبہ کے اندر مسلسل زوال اور گراوٹ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ جبکہ مقتدر حلقے کسی بھی سماجی مسئلے کو حل کرنے میں مفلوج نظر آتے ہیں۔ اسی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بخوبی علم ہے اور واضح طور پر نظر آتا ہیکہ تعلیم کے شعبے کی زوال پذیری ماضی کی نسبت موجودہ دور میں پہلے سے کئی گناہ زیادہ بڑھ چکی ہے اور پہلے سے زیادہ شدید تر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پہلے سے خستہ انفراسٹرکچر اور تباہ شدہ تعلیمی معیار اور تعلیمی ڈھانچہ ہر گزرتے سال مزید کمزور ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ آج کے اے آئی کے دور میں انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ ہر سال تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں اور فیسوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اکثریتی آبادی کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ یکساں نصاب تعلیم سمیت ہر طرح کے فسطائی، رجعتی اور قدامت پرستی پر مبنی اقدامات کو شدت کے ساتھ تعلیمی اداروں میں لاگو کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے معیار میں مسلسل گراوٹ ہے جبکہ جدید سائنسی و معیاری نظام تعلیم کو فروغ دینے کے بجائے مسلسل ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو معیار کو مزید گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے، طلبہ سیاست، طلبہ یونین اور جمہوری آزادیوں پر قدغنیں مسلسل جاری ہیں۔ استحصال، جبر، مہنگی و طبقاتی نظام تعلیم کو دوام بخشنے کے لیے اس قسم کے آمرانہ اقدامات مسلسل جاری ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ برصغیر کے طلبہ کی مزاحمتی تاریخ اور بلعموم بنگلہ دیش کے طلبہ کی کامیاب تحریک اور بالخصوص حالیہ”عوامی حقوق تحریک“ میں نوجوان طلبہ کی بھرپور جدوجہد، ہمارے لیے تعلیمی مسائل کے حل اور طلبہ حقوق کی بازیابی کے لیے مشعل راہ ہیں جن کو سیکھتے اور سمجھتے ہوئے ہم درست اور موثر طور پر مزاحمت کو منظم کر سکتے ہیں۔ طلبہ مزاحمت کی تاریخ کا بنیادی سبق ناقابل مصالحت اور مشترکہ جدوجہد ہی ہے جس کے ذریعے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

اجلاس میں طلبہ نے (SAC) اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جس تمام ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ کی نمائندگی شامل کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ 28 اکتوبر تک اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو طلبہ بھرپور تحریک چلائیں گے۔

اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مطالبات درج ذیل ہیں:

1)۔ جامعہ کوٹلی کے انفراسٹرکچر (کھیل کے میدان، لائبریری، جدید لیبارٹریز، ہاسٹل، روڈ کی پختگی) کو فی الفور مکمل کیا جائے۔
2)۔ صاف پانی، ابتدائی طبی امداد و ایمبولنس،معیاری و سستی کینٹین، طلبہ کی تعداد کی مناسبت سے ٹرانسپورٹ کا بندوست اور بس سٹینڈ فلفور تعمیر کیئے جائیں۔
3)۔جامعہ کے تمام شعبوں کی رجسٹریشن، ایفیلیشن، بروقت رزلٹ سمیت ہر ضروری کمی کو پورا کیا جائے۔
4)۔ طلبہ کی تعداد کی مناسبت سے اسٹاف کی کمی کو پورا کیا جائے۔
5)۔ ہر قسم کے آمرانہ ڈسپلن، غیر ضروری نگرانی کے لیے کیمروں اور سکیورٹی کو ختم کیا جائے، کیمپس کو جیل یا چھاؤنی بنانے کے بجائے اکیڈمک اور نان اکیڈمک دفاتر میں کیمروں کے نسب کو یقینی بنا کر جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بناتے ہوئے ایک معیاری تعلیم دوست ماحول قائم کیا جائے۔ 6)۔ جامعہ میں ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس میں طلبہ کو نمائیندگی دی جائے۔
7)۔ فیسوں میں اضافے کو فوری روکا جائے اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
8)۔ جدید، سائنسی اور معیاری نظام تعلیم کو لاگو کیا جائے۔
9)۔ طلبہ یونین کے الیکشن شیڈول کا فی الفور اعلان کیا جائے۔
10)۔ یکساں نصاب تعلیم کے بجائے یکساں نظام تعلیم کا قیام عمل میں لاتے ہوئے طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کیا جائے۔
11)۔تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت فراہم کی جائے۔
12)۔تمام مستحق طلبہ کو سکالرز شپ فراہم کی جائیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ ان تمام مطالبات کے گرد اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے جامعہ کے تمام طلبہ میں کیمپین کا آغاز کر دیاہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ اگر مطالبات پورے نہ کئے گئے تو احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے اور اسی کے ساتھ ساتھ طلبہ نے کشمیر کی دیگر جامعات کے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ بھی اس جدوجہد میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے تمام تعلیمی اداروں میں مسائل کا انبار بنا یا ہے۔ طلبہ کو اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں تحریک منظم کرنی چائیے تاکہ مشترکہ مسائل کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو منظم کیا جا سکے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts