ربیعہ باجوہ
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر درپردہ قوتوں نے اعلیٰ عدلیہ پر وار کیا ہے جو کہ عدلیہ کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا تسلسل ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت (صدر پاکستان) نے سپریم کورٹ کے قابل اور بے باک سمجھے جانے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے، کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا ہے جس میں الزام عائد کیا ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے بیرون ملک اثاثہ جات ہیں جو جسٹس فائز عیسیٰ نے ظاہر نہیں کیے۔ لہٰذا یہ معاملہ ججوں کے مروجہ ضابطہ کار کے مطابق مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم اس ریفرنس کے پیچھے اصل محرکات کچھ اور ہیں۔
درحقیقت اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں ہر جمہوری دور میں غیر جمہوری طاقتیں سیاسی نظام میں بھرپور مداخلت کرتی رہی ہیں اور ہر وہ حربہ استعمال کرتی ہیں جو جمہوری نظام کو کمزور کرے۔ جہاں سیاسی نظام ان قوتوں کے نشانے پر رہا وہا ں عدلیہ بھی کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ ان کی سازشوں کا شکار رہی۔
یہ غیر جمہوری قوتیں ہمیشہ سے آزاد عدلیہ کے ”نقصانات“ سے آگاہ ہوتی ہیں۔ اب انہوں نے آزاد منش ججوں کے خلاف اپنی سازشوں کو تیز کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اعلیٰ عدلیہ کسی طور نہ تو مکمل آ زاد ہے اور نہ ہی قابل ستائش بلکہ دیگر سرکاری اداروں کی طرح عدلیہ کی صورتحال بھی مایوس کن ہے۔
لیکن جو چند ایک جج آزاد منش ہیں وہ اب عدلیہ کے اندر اور باہر موجود غیر جمہوری عناصر کے نشانے پر ہیں اور ان میں جسٹس فائز عیسیٰ سر فہرست ہیں۔
اس سلسلے میں یہ واضح رہنا چاہئے کہ کوئٹہ سانحہ 8 اگست 2016، جس میں کوئٹہ بار سے تعلق رکھنے والے تقریباً 74 وکلا شہید ہوئے، کے واقعے کی انکوائری کے لئے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل یک رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس وقت کے وز یر داخلہ (چوہدری نثار) کے کالعدم تنظیموں سے روابط، ان تنظیموں کو کالعدم قرار دینے میں غیر ضروری تاخیر اور نیکٹا کی ناکامی پر سوالات اٹھائے تھے۔
اسی طرح تحریک لبیک کے 2017ء کے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے سو موٹو اختیارات کے تحت کاروائی کی اور جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں دھرنے کے حوالے سے حکومت کی ناکامی اور خفیہ ایجنسیوں کی دھرنے میں مداخلت کے حوالے سے پائی جانے والی عمومی رائے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ہدایت کی تھی شواہد کی روشنی میں دھرنوں میں مداخلت کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کاروائی کی جا ئے۔ عدالت نے مزید کہا تھا کہ ایجنسیاں اور آئی ایس پی آر اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ ان ایجنسیوں اور اداروں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ میڈیا ہاوسز یا اخبارات پر اثر انداز ہوں یا میڈیا کو سنسر کریں۔
اس فیصلے کے آتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ حلقوں کی طرف سے فوری ردعمل آنا شروع ہو گیا کہ اس فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے فوج کو تنقید کا نشانہ بنا کر دشمن کے بیانیے کو مضبوط کیا ہے اور فوج پر تنقید قابل قبول نہیں ہے۔
اگر ملک میں واقعی جمہوریت ہوتی تو اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا اور سرکاری اداروں کو ان کے آئینی کردار تک پابند کرنے کے لئے فوری اور سنجیدہ اقدامات کیے جاتے۔
مگر افسوس کہ اس کے برعکس یہ فیصلہ دینے والے ججوں کے خلاف ہی جاری سازشوں کو تیز کر دیا گیا اور بالآخر وہی صدر جوماضی میں جسٹس فائز عیسیٰ کی ایمانداری اور قابلیت کی تعریف کرتا تھا، نے اپنے آئینی منصب کی تکریم کا خیال کیے بغیر اسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔
اب یہ ایک نئی جنگ کا آغاز ہے۔ اس سے قبل بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف درخواستیں دائر کی جاتی رہی ہیں مگر وکلا اور جمہوری حلقوں سے ردعمل آنے پر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
خود عدلیہ کے لئے بھی اتنا آسان نہیں ہے کہ اس بے باک منصف کے خلاف کسی سازش کا حصہ بنے اور جس شاخ پر بیٹھی ہے اسے ہی کاٹ دے۔
جہاں تک وکلا سیاست کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ بار، پاکستان بار کونسل، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کی وکلا تنظیموں نے کھل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ بار سے ابھی اس طرح کا ردعمل نہیں آیا حالانکہ وہاں اس وقت ن لیگ کی حمایت یافتہ کیبنٹ ہے۔ مگر اس کا تعلق وکلا تحریک مخالف دھڑے سے ہے۔ اس کے باوجود پنجاب بھر کے وکلا میں بڑے پیمانے پر قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت موجود ہے۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے بھی بہت مشکل ہے کہ وہ موقع پرستی کا مظاہرہ کریں کیونکہ ان کو فی الوقت ایسی سیاست کرنی ہے جس سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔
دوسری طرف غیر جمہوری قوتوں کو ہمیشہ کی طرح طاقت کے زعم میں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس قسم کی مہم جوئی خود ریاستی اداروں کے لئے کتنی تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کو بھی درپردہ ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ وہ ہر قیمت پر قاضی فائز عیسیٰ کو نظام سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں اور عدلیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی آزاد ی ان کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر استعمال کرے اور آئندہ کوئی جج اپنے فیصلوں کا دائرہ کار اتنا وسیع نہ کرے کہ وہ قومی مجرموں کے گریبانوں تک پہنچیں۔