قیصر عباس
صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے (Committee to Protect Journalists) اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حال ہی میں گرفتار کئے گئے کشمیری صحافیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، ان کی تفتیش بند کی جائے اور کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ختم کی جائیں۔
اکتوبر کے مہینے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں صحا فیوں کو ایک بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے یا انہیں شامل تفتیش کیا گیاہے۔ ان میں کل وقتی یا جز وقتی اخباری نمائندے، آن لائین صحافی اور فوٹوگرافر بھی شامل ہیں۔
نیو یارک میں سی پی جے کے پروگرام ڈائرکٹر کارلوس مارتینز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ”کشمیر میں صحافیوں کی گرفتاری میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سرکاری حکام صحافیانہ ذمہ داریوں کی اہمیت سے نابلد ہیں اور اخباری نمائندوں کے کام کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔“
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسی ماہ گرفتار کئے گئے صحافیوں سلیمان ستھ، سلمان شاہ اور سہیل ڈار کو جلد رہا کیا جائے اور میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ ذرائع ابلاغ بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ سرکاری حکام اور پولیس افسران اس سلسلے میں سی پی جے کے سوالات اور ان کی فون کالز کا جواب نہیں دے رہے۔
اطلاعات کے مطابق سلیمان ستھ کو سترہ اکتوبر کی صبح گاندربل ڈسٹرکٹ میں اپنے گھر سے گرفتار کیاگیا تھا۔ وہ ایک غیر وابستہ صحافی کی حیثیت سے اردو اخبار ’روزنامہ گھڑیا ل‘ کے لئے کام کرتے ہیں۔
دو اور صحافیوں سلمان شاہ اور سہیل ڈار کو بھی اس ماہ کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا جنہیں اننت ناگ ڈسٹرکٹ جیل میں زیر حراست رکھا گیاہے۔ سلمان شاہ ڈیجیٹل میگزین ’کشمیر فرسٹ‘ کے مدیر ہیں۔ سہیل ڈار غیر وابستہ صحافی کے طور پر ’کشمیریت‘ اور ’مکتوب میڈیا‘ کے نام سے آن لائین اخبارات کے لئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان دونوں صحافیوں کو امن عامہ کے خلاف مواد نشر کرنے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اسی دوران بارہ مولا ڈسٹرکٹ میں اردو اخبار ’تعمیل ارشاد‘ کے فوٹو گرافر جنید اشفاق کو بھی پیر کے روز مسلح فوجی دستوں نے ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق بعد میں انہیں تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا اور کو ئی الزامات عائد نہیں کئے گئے۔ اس کے علاوہ حکام دیگر صحافیوں کو بھی گرفتار اور ان سے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔
آن لائن اخبار ’کشمیر والا‘ کے مطابق بی بی سی کے لئے کام کرنے والے فوٹوگرافر ظہور مختار کو پولیس نے گزشتہ دنوں سری نگر سے گرفتار کیا، ایک رات زیر حراست رکھ کر ان کے کیمرے اور تصاویر چھین لئے گئے اور ان سے سیاسی نوعیت کے سوالات کئے گئے۔ ان کے علاوہ ماجد حیدری اور ساجد گل کو بھی گرفتار کر کے ان سے ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں، سیاسی واقعات اور لیڈروں کے بارے میں سوالات کئے گئے۔
عالمی تنظیموں کے علاوہ بھارت میں صحافیوں کی تنظیموں انڈین جرنلسٹس یونین (IJU) اور نیشنل یونین آف جرنلسٹس (NUJ-I) نے بھی ان صحافیوں کو جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی جے یو کے صدر گیتھرتا پاٹھک نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ”کشمیری حکام صحافیوں کی گرفتاری کا سلسلہ بند کریں اور زیر حراست صحافیوں کو فوری طورپر رہا کریں۔ میڈیا پر پابندیوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیمیں ان اقدامات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ اگر ہم آج آزادی اظہار کے حق میں نہیں اٹھے تو ان کا دائرہ ملک کے دوسرے حصوں تک بھی بڑھ سکتا ہے۔“
مقامی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار اوزیر حراست رکھنے کی ان کوششوں کو علاقے میں ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کے ایک نئے منصوبے کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ذرائع ابلاغ کو خوف زدہ رکھنا، صحا فیوں کی آرا پر پابندیاں لگانا اور عوام کو ملکی حالات سے بے خبر رکھنا ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔