کارلو رویلی
پچاس نوبل انعام یافتہ شخصیات اور بہت سے مختلف ممالک کی نیشنل اکیڈیمیز آف سائنسز کے صدور نے ایک اپیل پر دستخط کئے ہیں۔ اس اپیل میں پوری انسانیت کے لئے ایک سادہ سی مگر ٹھوس تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس تجویز کی بنیاد یہ مشاہدہ ہے کہ انسانیت کو درپیش بعض چیلنجوں پر سب کا اتفاق ہے۔ یہ مسائل ہیں: وبائیں، عالمی حدت، بے انتہا غربت…مگر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بے شمار وسائل درکار ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ وسائل آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ماحولیات پر ہونے والی گذشتہ کانفرنس کے دوران یہ حقیقت بالکل واضح تھی: اس بات پر تو سب متفق تھے کہ دنیا کو ماحولیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے مگر ضروری اقدامات کے لئے وسائل کہاں سے لائے جائیں، اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا؟
پچاس نوبل انعام یافتہ شخصیات کی جانب سے دی گئی سادہ مگر ٹھوس تجویز ایک ایسا راستہ دکھاتی ہے جس کے نتیجے میں بہت سے وسائل اس بنیاد پر دستیاب ہو سکتے ہیں اگر مشترکہ کوشش کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔
2000ء سے اب تک فوجی اخراجات میں دو گنا اضافہ ہواہے۔ ہر ملک کے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ سالانہ 2 ٹریلین ڈالر فوجی اخراجات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ حکومتیں اس لئے بھی فوجی اخراجات بڑھانے پر مجبور ہوتی ہیں کہ مبینہ حریف ممالک اپنا فوجی بجٹ بڑھا رہے ہیں۔ اس دوڑ کا حتمی نتیجہ، بد ترین صورت حال میں، جنگی تباہیوں کی شکل میں ہی نکل سکتا ہے۔ بہترین صورت حال میں بھی اس دوڑ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان قیمتی وسائل کو جنگی اسلحے میں جھونک دیا جاتا ہے جو زیادہ منفعت بخش اقدامات کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ پچاس نوبل انعام یافتہ شخصیات کی تجویز ہے کہ حکومتیں ایک عالمی معاہدہ کریں جس کے نتیجے میں، پانچ سال تک، ہر ملک فوجی اخراجات میں 2 فیصد سالانہ کمی کرے۔
انفرادی ممالک کے نقطہ نظر سے، اگر حریف ممالک اپنی دفاعی صلاحیت میں کمی کر دیں تو اس سے احساس تحفظ میں اضافہ ہو گا نہ کہ کمی۔ اس طرح سے طاقت کا توازن پیدا ہو گا۔ مزید براں، اس طرح کے معاہدے سے عالمی دشمنیوں میں کمی آئے گی اور جنگ کا خطرہ کم ہو گا۔
تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلحے کی دوڑ روکنے کے لئے کئے گئے معاہدے ممکن ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ اور سوویت روس کے مابین ہونے والے سالٹ (SALT) اور سٹارٹ (START) معاہدوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے ایٹمی ہتھیاروں میں 90 فیصد کمی آئی۔
ان دو معاہدوں کی ابتدائی تجویز سائنس دانوں اور دانشوروں نے پیش کی۔ ایسے مذاکرات اس لئے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ یہ منطق پر مبنی ہوتے ہیں: اسلحے میں دو طرفہ کمی سے ہر فریق مستفید ہوتا ہے۔ یوں پوری انسانیت کو فائدہ ہوتا ہے۔ اشتراک کا فائدہ ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر اسلحے کی مد میں ہونے والے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ فقط 2 فیصد کمی سے بے شمار وسائل دیگر کاموں کے لئے مہیا ہو سکیں گے۔ وسائل کی اس بچت کو ہم ’امن کا منافع‘ کہہ سکتے ہیں اور 2030ء تک اس مد میں 1 ٹریلین ڈالر دستیاب ہوں گے۔
اقوام متحدہ اور دیگر ایجنسیوں سمیت، تمام ممالک اشتراک باہمی کے منصوبوں پر جتنا خرچ کرتے ہیں، 1 ٹریلین ڈالر کی رقم اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پچاس نوبل انعام یافتہ شخصیات کی یہ بھی تجویز ہے کہ اس طرح جمع ہونے والی رقم سے ایک عالمی فنڈ قائم کیا جائے جس کی نگرانی اقوام متحدہ کرے اور اس فنڈ کا آدھا حصہ اس خطہ ارض کے عمومی مگر ہنگامی مسائل…مثلاً وبائیں، ماحولیاتی تبدیلیاں اور غربت وغیرہ…کے حل کے لئے خرچ کیا جائے۔ باقی آدھی رقم جو اس ممکنہ معاہدے سے حاصل ہو گی، وہ متعلقہ حکومتوں کے پاس ہی رہے۔ یوں تمام ممالک کے پاس نئے وسائل دستیاب ہوں گے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے راستے میں کئی طرح کی تکنیکی، سیاسی اور نظریاتی دشواریاں حائل ہیں لیکن جب مشترکہ مفاد کی بات ہو تو رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے۔
اس تجویز کے دستخط کنندگان دنیا میں بڑھتے ہوئے جنگی جنون اور مخالفین کے خلاف شدید پراپیگنڈے بارے شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاسی مباحث میں انسانیت کے مشترکہ مسائل، اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ منطق کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے تاکہ امن اور اشتراک کی راہ ہموار ہو سکے۔
یہ خطہ ارض زیادہ بڑا نہیں، نوع ِانسانیت لاغر ہے اور اسے کئی خطرات لاحق ہیں۔ ہم تمام تر اختلافات کے باوجود باہمی اشتراک سے ہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ پچھلی کئی صدیوں میں انسانیت نے جو بھی ممکن بنایا، باہمی اشتراک سے حاصل کیا۔
یہ اپیل یہاں دستیاب ہے اور اگر کوئی اس کی حمایت میں دستخط کرنا چاہے تو پٹیشن بھی دستیاب ہے۔