خبریں/تبصرے

آواز کی دیوی لتا خاموش ہو گئی

التمش تصدق

نصف صدی تک کروڑں انسانوں کے کانوں میں اپنی سریلی آواز کے زریعے رس گولنے والی سروں کی ملکہ لتا منگیشکر اس دنیا میں نہیں رہی ہیں۔ انہوں نے 36 ہندوستانی زبانوں میں تیس ہزار سے زیادہ فلمی گانے گائے ہیں۔ ان کی موت پر نہ صرف ہندوستان میں کروڑوں انسان دکھی ہیں بلکہ پاکستان میں بھی ہر آنکھ اشک بار ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف سوشل میڈیا پر جس طرح لتا جی کی موت پر ان کے مداحوں کی طرف سے اظہار افسوس کیا جا رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے ہزاروں سالوں سے قائم مشترکہ تہذیبوں کو تقسیم کرنے والی برطانوی سامراجی کی طرف سے کھینچی گئی یہ مصنوعی لکیریں، یہ خار دار تاریں، یہ جنگی جنون، یہ کشت و خون ان سرحدوں میں محکوم انسانوں کو تو قید کر سکتا ہے، ان کو مار سکتا ہے، فن کو نہیں قید کر سکتا، آوازوں کو نہیں قید کر سکتا، سوچ کو ہمیشہ کے لیے نہیں قید کر سکتا، ہواؤں کو نہیں قید کر سکتا، سورج کی کرنوں کو نہیں قید کر سکتا، وہ سروں اور صداوں کو قید نہیں کر سکتا۔ وہ زبانیں جو ہزاروں سالوں کے مشترکہ پیدواری عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں ان میں موجود الفاظ اور انکے معنی کو یہ سرحدیں نہیں بدل سکتی ہیں۔ وہ ادائیں جو دل کو لبھاتی ہیں، وہ فضائیں جو جیون کا احساس دلاتی ہیں ان کو قید کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ شکاری کوئل کو تو قید کر سکتے ہیں کوئل کے ان گیتوں کو کیسے قید کریں گے۔

لتا جی کے ان گیتوں کو ہندوستان کی سرحدوں میں کیسے مقید رکھا جا سکتا ہے، مہدی حسین کی غزلوں کو اور فیض کی نظموں کو پاکستان کی سرحدوں میں کیسے قید کر سکتے ہیں۔ بھگت سنگھ کے افکار کو کون سی سرحد تقسیم کر سکتی ہے۔ رام پرساد بسمل کے ترانوں کی للکار کو کون سی باڑ روک سکتی ہے۔ لتا جی کو آواز کی دیوی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس کے برصغیر پاک و ہند میں کروڑوں پوجاری ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بر صغیر میں موجود ثقافتوں میں رقص و موسیقی سمیت دیگر فنون کو مذہب کا درجہ حاصل تھا۔ وہ حیثیت فن کو حاصل تھی جو اج ان ممالک میں نفرت اور عداوت کو حاصل ہے۔ برطانوی سامراج نے محض اس سر زمین میں دیوار کھڑی کر کے یہاں کہ باسیوں کو تقسیم نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے نفرتوں کی ایک دیوار انکے دلووں اور دماغوں میں کھڑی کی گئی وہ دھرم اور مذہب کے نام پر نفرتوں کی دیوار تھی، وہ ذات، برادری، زبان اور نسل کی بنیاد پر نفرت کی دیوار تھی۔ یہ دیوار تقسیم کے ذریعے حکمرانی کرنے کے لیے کھڑی کی گئی تھی۔

جب برطانوی سامراج برائے راست حکمرانی کے قابل نہیں رہا اس نے جاتے ہوئے نے اس خطے کو مذہب کے نام پر مستقل تقسیم کر کے امریکہ کی حوالے کر دیا۔ ان ممالک کا حکمران طبقہ سامراج کا دلال اور شیطان کا چیلہ ہے جس نے سامراج کے اشاروں پر اس خطے کو بارود کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔ انہوں نے گولیوں کی اس گن گرج میں کوئل کی آواز دبا دی ہے، آقاؤں کی خوشی کے لیے شہر کو آگ لگا دی ہے، بانسری چھین کر ہم کو بندوق تھما دی ہے، زندہ جسم پر باڑ لگا دی ہے۔ فوجیں کھڑی کر کے سرحد بنا دی ہے۔ ان حکمرانوں کی حکمرانی کی بنیاد نفرت پر ہے، اس نفرت کو قائم رکھنے کے لیے خون درکار ہے، جنگی جنون درکار ہے، لاشیں درکار ہیں، بم بارود درکار ہے۔ مذہب کے نام پر دھنگے فساد درکار ہیں۔ انکو موسیقی کی آواز نہیں بندق اور بم دھماکوں کی آواز پسند ہے۔ ان نفرتوں کو جاری رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ خرچ کیے جاتا ہے اس کے باوجود یہ حکمران طبقہ اس خطے کے محنت کشوں کا طبقاتی اور ثقافتی تعلق مکمل ختم نہیں کر سکا ہے۔ کیونکہ اس خطے کے محنت کشوں کی نہ صرف مشترکہ ثقافت اور زبان ہے بلکہ ان کے دکھ درد، محرومیاں، مجبوریاں ایک جیسی ہیں۔ سرمائے کی غلامی اور ذلتیں ایک جیسی ہیں۔ اس خطے میں برطانوی سامراج کے مسلط کردہ حکمران طبقات اور ان کے اس نظام کو ختم کر کے ہی ہر قسم کی تقسیم اور نفرتوں کو مٹایا جا سکتا ہے اور ایسے سماج کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جہاں انسان ہر قسم کی محرومیوں سے آزاد ہو کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے۔ ایسا سماج جہاں انسان فن روزگار کے لیے نہیں اظہار کے لیے استعمال کرے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔