نقطہ نظر

موت کی کتاب

محمد شیراز دستی

مسعود قمر کی کتاب ’آئینے میں جنم لیتا آدمی‘ ماضی کے شاعروں، ناول نگاروں، فلسفیوں اور فنکاروں (جیسا کہ دوستوفسکی، فرانز مارک، کافکا، محمود درویش وغیرہ) کی تخلیقی سوچ کی مظہر اور اس کا مواد تاریخی حقائق پر مبنی ہے، جیسے ان کی نظم ’عمل زمین پر تھا قہقہے آسمان پر‘ میں ضیا دور کے خاتمے کا جشن ہے، جس دور میں شاعر کو آزادی اظہار رائے کی تحریک میں سرگرم ہونے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے سویڈن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی، تاہم اس سب کے باجود یہ کتاب اپنے خواص میں عین موت کی کتاب ہے۔

فلسفہ موت پر مبنی مرزا غالب کے مشہور شعر ’موت کا ایک دن معین ہے/نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘ سے فلسفہ وحدت الوجود کی عکاسی کرتا احمد ندیم قاسمی کا شعر ”کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا/میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا“ اور فراق گورکھپوری کی رجائیت تک ”کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں /زندگی تم نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکا“، موت ہمیشہ سے اردو شاعری کا موضوع رہی ہے۔ موت کے اس معنوی سفر میں یا یوں کہیے لافانیت کی تلاش میں مسعود قمر کی زیر نظر کتاب کیا انفرادیت رکھتی ہے۔

مسعود قمر موت کے متنوع معانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ’مرحوم کی آخری موت‘ جیسی نظموں سے پتا چلتا ہے کہ شاعر اسے زندگی میں ایک دہرائے جانے والا واقعہ گردانتا ہے۔ ’بے حمل پیدائش‘ میں، وہ کہتے ہیں ”مصروفیت کی بنا پر/بہت عرصے سے/میں مر نہیں سکا/میں زندگی کے بغیر/زندہ رہا جا رہا ہوں“ اس کا مطلب شاعر روزمرہ معمولات سے وقفہ لینے کے لیے موت کی آغوش میں جانا چاہتا ہے۔ شاعر نظریہ موت کے تحت صرف موت کی بار بار خواہش ہی نہیں رکھتابلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ موت معنی خیز ہو: ”لیکن میری موت اگر/زندگی بھرے کسی بھی/ایک گیت سے محروم رہی/تو/وہ ایک لایعنی موت ہو گی“۔

اپنے قارئین کو حقیقت پسندانہ مارکسی نکتہ نظر سے حقائق دکھانے کے لیے شاعر بعض اوقات اپنی وجودی عینک اتار دیتا ہے۔ موت کے بارے میں ہم جانکاری حاصل کرتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے: ”مگر غربت کی وجہ سے دفنایا نہیں گیا“، ”میرے نام کی کوئی قبر نکل آئی/ تو میں لاٹری میں نکلی قبر میں /دفن ہونے کے لیے/سرپٹ بھاگتے گھوڑے پر بیٹھ کر/قبرستان جاؤں گا“۔ موت بیش قیمت ہے اور چوری بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ بیانیہ نظم میں بتایا گیا: ”موت چورانے والی عورت“۔ ایک تجارتی جسن بننے کے بعد موت سے جڑی ہر چیز کی ایک قیمت طے ہے: ”لوگ جنازوں کو اس وقت تک/دفنانے نہیں دیتے/جب تک وہ/پچھلے جنازوں کا بقایا/اور/مستقبل کے جنازوں کا بیعانہ/وصول نہیں کر لیتے“۔

کتاب میں شامل اپنے تعارفی مضمون میں تنویر انجم بتاتے ہیں کہ مارکسزم سے وجودیت تک اور ساتھ ہی استعمار کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے کس طرح مسعود قمر کا فکری ارتقا ہوا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ موت زندگی کا گہرا مطالعہ کرنے کے لیے اس کے نزدیک ایک پرزم ہے۔ ’موت کا ادب‘ میں، چارلس گلکزبررگ وجودیت پسندوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے: ”جب بھی انسان موت کی حقیقت پر غور کرتا ہے دراصل وہ زندگی سے متعلق متفکر ہوتا ہے، کیونکہ موت خطرناک انداز میں اس کے پس منظر میں کھڑی ہوتی ہے، اس کے ہر زندہ لمحے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوتی ہے“۔ مسعود قمر نے موت کو پیار اور وقت کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے یوں احتجاج کیا: ”میں /جب پیدا ہوا/میں نے پہلی چیخ/ محبت، وقت/اور/موت کی تکون کے خلاف ماری“۔

شاعر زندگی کے بارے میں پُرتشویش رویہ کا اظہار پُرخوف دنیا کی نظموں کے ذریعے کرتا ہے، جیسا کہ ناصر عباس نیر نے بجا طور پر اس کی نشاندہی کی ہے۔ لوگوں کی آزادی اظہار رائے سلب کرنے کیلئے راتوں رات آرڈیننس جاری کیے جاتے ہیں: ”ہر چوک میں آرڈیننس/بے شور راگوں میں /گائے جا رہے ہیں“۔ اس کے بعد لوگ جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں: ”اور پھر ان میں سے/کچھ غائب کر دیئے جاتے“۔ پھر اس کے بعد حراست میں تشدد ہوتا ہے: ”میرا وعدہ ہے/اگر/ریاستی تشدد برداشت نہ کر سکا/تو/مٹھی نہیں کھولوں گا“۔ آخر میں کھونے والوں کیلئے گیت گانے کا وقت ہے: ”تم گیت گانا/اس مسنگ پرسن کے لیے/جس کے منہ، ناک، کانوں /اور/آنکھوں میں ریت بھری گئی/اور/پھر گولی مار دی گئی“۔

مسعود قمر کی نظمیں اس وقت تک ہم سے متعلقہ رہیں گی، جب تک موت ہماری زندگیوں میں بار بار آتی رہے گی، تجارتی جنس بنا دی جائے گی یا ظالموں کے ہاتھوں ایک آلے کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی۔

تبصرہ نگار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں، ان دنوں میک گل یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں،وہ اردو ناول ’ساسا‘ کے مصنف بھی ہیں۔

بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے

Roznama Jeddojehad
+ posts