خبریں/تبصرے

انتظامیہ پابندیاں ختم کرنے پر مجبور: بلوچ لانگ مارچ کا تونسہ میں تاریخ ساز استقبال

لاہور(جدوجہد رپورٹ) بلوچ یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام کوئٹہ سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں لانگ مارچ کے شرکاء گزشتہ سہ پہر تونسہ پہنچ گئے۔ تونسہ میں ہزاروں افراد نے لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال کیا اور ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی ریلی اور جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔

پیر کے روز ڈیرہ غازی خان پہنچنے پر بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کا والہانہ استقبال کیاگیا۔ تاہم پولیس نے کریک ڈاؤن کیا اور لاٹھی چارج کے بعد 20سے زائد شرکاء لانگ مارچ کو گرفتا کر لیا تھا۔ گرفتاریوں کے علاوہ انتظامیہ نے ڈیرہ غازی خان میں ٹرانسپورٹرزکو بھی لانگ مارچ کے شرکاء کو گاڑیاں فراہم نہ کرنے کا پابند کر رکھا تھا۔

انتظامیہ کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ اپنائے گئے رویہ کے خلاف ڈی جی خان میں لانگ مارچ کے شرکاء نے احتجاجی دھرنا دے دیا تھا اور 12گھنٹے تک احتجاجی دھرنا جاری رکھا گیا۔ احتجاجی دھرنا کے بعد لانگ مارچ کے گرفتار شرکاء کو رہا کیا گیا، تاہم گاڑیاں فراہم کرنے پر پابندی برقرار رکھی گئی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے منگل کے روز انتظامیہ کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے پیدل لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم انتظامیہ نے مذاکرات کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء کو گاڑیاں کرائے پر حاصل کرنے کی اجازت دی گئی، جس کے بعد ڈی جی خان سے تونسہ کیلئے مارچ کے شرکاء روانہ ہوئے۔ تونسہ پہنچنے پر ہزاروں افراد نے مارچ کے شرکاء کا استقبال کیا۔

’ڈان‘ کے مطابق پولیس نے تمام حراست میں لئے گئے افراد کو رہا کر دیا، لیکن ان کے خلاف درج ایف آئی آرز کو منسوخ نہیں کیا۔ مظاہرین کے خلاف اجتماعات پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں مقدمات درج کئے گئے ہیں۔

قبل ازیں جب مارچ کے شرکاء ڈی جی خان میں پہنچے تو سنگم چوک، گدائی ڈیرہ، کوئٹہ روڈ اور دیگر محلوں میں لانگ مارچ کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کیلئے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔

لانگ مارچ کی ایک آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچکا کہنا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی رہائی، ماورائے عدالت قتل عام اور بلوچ نسل کشے کے خاتمے کے مطالبات کے گرد پر امن مارچ کر رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ پنجاب انتظامیہ نے اپنے اپنے علاقوں میں مارچ کرنے والوں کا استقبال کرنے والوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا اندراج شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے مظاہرین اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے مقامی لوگوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

دو روز قبل پولیس نے غازی یونیورسٹی کے 4طلباء کو مارچ کرنے والوں کیلئے استقبالیہ کیمپ لگانے پر گرفتار کیا تھا۔ شوکت علی، آصف لغاری، معراج لغاری، عبداللہ صالح اور خواتین سمیت دیگر10افراد کو بھی دفعہ 144کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پر امن مظاہرین کے خلاف ریاست کی جانب سے طاقت کے بے تحاشہ استعمال کی شدید مذمت کی۔

ایک بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ گرفتار افراد کو غیر مشروط رہا کیا جائے اور لانگ مارچ کو اسلام آباد تک پر امن اور بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھنے دیا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بلوچ مظاہرین کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے ان کے خلاف تمام الزامات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ مارچ اس وقت شروع ہوا جب تربت میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے 24سالہ بالاچ بلوچ کو گرفتار کرنے کے بعد قتل کر نے کا الزام سامنے آیا۔

بالاچ بلوچ کے اہل خانہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے 2ہفتے تک تربت میں احتجاجی دھرنا دیا۔ بعد ازاں کوئٹہ تک 766کلومیٹر طویل لانگ مارچ کیا اور کچھ دن کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ااغاز کیا گیا۔

بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے بھی بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کے خلاف ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کی گئی ہے اور لانگ مارچ کے شرکاء کو پر امن طریقے سے بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آباد جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جے کے این ایس ایف سمیت دیگر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے طالبعلموں اور نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کامختلف شہروں میں بھرپور استقبال کریں اور بلوچ عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts