خبریں/تبصرے

بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار ختم، فی یونٹ قیمت 10 روپے تک لائی جائے: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی

لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے حسنین جمیل فریدی، عائشہ احمد، رفعت مقصود اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس میں حالیہ اضافے کے باعث اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد گھی، تیل، ادویات، دودھ اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 22 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں یہ اضافہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔

پاکستان کے ٹیکس نظام کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں امیروں کی ٹیکس چوری اور رجعت پسند ٹیکس نظام پر انحصار شامل ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیائی خطے میں ٹیکس جسٹس شدید مشکلات کا شکار ہے، جہاں بڑے پیمانے پرعام لوگوں پر ٹیکسوں کے نفاذ کی زیادتیوں کی وجہ سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔

ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور دولت مند افراد کی جانب سے عالمی سطح پر ٹیکس کے غلط استعمال اور چوری کی وجہ سے ان ممالک کو ہر سال ٹیکسوں کی مد میں 483 بلین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ عالمی ٹیکس قوانین کی ناکامیوں کی وجہ سے حکومتوں کو ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور دولت مند افراد کی جانب سے ٹیکس کے غلط استعمال کی وجہ سے روزانہ ایک بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ان ممالک کا ٹیکس نظام معیاری عوامی خدمات کی مالی اعانت، انسانی حقوق کو یقینی بنانے، اور موسمیاتی کارروائی کی فراہمی کے لیے درکار محصولات کو بڑھانے کی صلاحیتوں میں رکاوٹ ہے۔

بین الاقوامی خرابیوں پر مبنی ٹیکس کا یہ نظام ان ممالک کے اندر عدم مساوات کو بڑھاتا ہے اور جنوبی ممالک کے لوگوں اور ممالک پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے۔ہم فوری طور پر بین الاقوامی ٹیکس تعاون پر ایک جامع اور منصفانہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کا مطالبہ کرتے ہیں، جو طویل عرصے سے زیر التواء ہے۔

موجودہ بین الاقوامی ٹیکس کا پورا نظام نوآبادیاتی تسلط کی پیداوار ہے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ تمام لوگ جو انسانی حقوق، مساوات، انصاف اور شفافیت کے اصولوں کے لیے کھڑے ہیں متحد ہو جائیں اور ٹیکس کے قوانین کو از سر نو تبدیل کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کریں ،تاکہ عام لوگوں اور اس پورے کرہ ارض کے لیے کام کیا جا سکے۔

نومبر 2023 میں اقوام متحدہ میں ایک تاریخی ووٹنگ کے نتیجے میں بین الاقوامی ٹیکس تعاون پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ٹیکس کنونشن) کے قیام کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ یہ عالمی ٹیکس قوانین اور اصول سازی کواز سر نو مرتب کرنے کی طرف اشارہ ہے، تاکہ بین الاقوامی ٹیکس نظام لوگوں کی ضروریات اور حقوق کے لیے صحیح معنوں میں کام کر سکے۔ دنیا کی امیر ترین معیشتوں کی مزاحمت کے باوجود اس قرارداد کی کامیابی گلوبل ساؤتھ کے ممالک اور عوام کی جانب سے ٹیکس کے عالمی قوانین پر بامعنی آواز کے لیے پرزور مطالبہ کا اظہار کرتی ہے۔ ایک ایسی آواز جس کی وہ تاریخی طور پر تردید کرتے رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان نے بین الاقوامی ٹیکس تعاون پر اقوام متحدہ کے اس فریم ورک کنونشن کی حمایت کی۔ تاہم، موجودہ حکومت کی طرف سے ٹیکس لگانے کے اندرونی طریقہ کار اس کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔

پاکستان کا ٹیکس نظام ان نوآبادیاتی طریقوں کی ایک ضمنی پیداوار ہے جو امیر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کا ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب کم رہا ہے جس کی وجہ سے کئی سالوں سے مجموعی طور پر بجٹ کا خسارہ ہے۔ اس غیر مساوی تناسب کو غریبوں پر نہیں بلکہ امیروں پر ٹیکس لگا کر بہتر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایک طرف تو حکومت امیروں کو رعایتیں دیتی ہے اور غریبوں پر بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہے۔ دوسری جانب حکومت کا بالواسطہ ٹیکس پر مجموعی طور پر انحصارزیادہ رہا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس کا نظام رجعت پسندانہ ہے جبکہ اسے ترقی پسندانہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹیکس کا موثر طریقہ کار متعارف کرانے میں حکومتی کوششیں غلط ہیں۔ پاکستانی حکومتوں نے اپنے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے متوسط اور محنت کش طبقے کو مسلسل نشانہ بنایا ہے، اس طرح ان پر زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ پڑ رہا ہے، جب کہ ملک کے اشرافیہ اور انتہائی امیر طبقے کو ٹیکس لگانے کی کوششوں سے مسلسل استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے عام لوگ امیروں کے شاہانہ طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ایسا نظام طویل مدت نہیں چل سکتا۔ اگرچہ تمام جنوبی ایشیائی ممالک کو ٹیکس کے نظام سے پیدا ہونے والی عدم مساوات کے چیلنجوں کا سامنا ہے.

پاکستان میں غیر منصفانہ ٹیکس کے مسائل کا جائزہ لینے کیلئے اگر اس کا دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام متعدد مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان کا زیادہ انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے۔ اس لیے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں یہاں عدم مساوات میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ مثال کے طور پربھارت کا کثیر الجہتی جی ایس ٹی نظام بالواسطہ ٹیکس مزید بہتری کی جانب گامزن ہے۔ نیپال میں جی ایس ٹی13 فیصد، بنگلہ دیش15 فیصد، اور سری لنکا 15 ٖفیصد جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان کی جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد خطے میں سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں موجودہ ٹیکس نظام کے نتیجے میں کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں: جن میں عوامی خدمات اور ترقی کے لیے حکومتی محصولات میں کمی، ملک کے اندر عدم مساوات میں اضافہ، بیرونی فنانسنگ اور قرضوں پر مسلسل انحصار، اور قومی خودمختاری کو مجروح کرنا اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو جائز طریقے سے ٹیکس لگانے کی صلاحیت شامل ہیں۔

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، پاکستان کو کم مراعات یافتہ طبقے پر اضافی بوجھ ڈالے بغیر ملک کی انتہائی دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہم حکومت کی جانب سے پہلے متعارف کرائے گئے سپر ٹیکس کے نفاذ کا دوبارہ مطالبہ کرتے ہیں۔حکومت امیروں پر ٹیکس لگانے کا پہلا مسودہ دوبارہ پیش کرے جو 2022 میں شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد پیش کیا گیا تھا۔

حکومت بجائے ان اقدامات کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے۔بجلی پر بالواسطہ ٹیکس کی بات کی جائے تو بجلی کے بل میں درج ذیل ٹیکس شامل ہیں: بجلی کی ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، مزید ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جی ایس ٹی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر انکم ٹیکس، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، سرچارج، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، اور کل ایندھن قیمت ایڈجسٹمنٹ۔یہ ٹیکس کل بجلی کے بل کا تقریباً 50 فیصد بنتا ہے، ٹیکسوں کی یہ بھرمار پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام کیساتھ ظلم کے مترادف ہے۔پچھلے چند سالوں میں اپنی ٹیکسوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی غربت میں اضافہ ہوا اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔

ہم بجلی کے بلوں سے ان ٹیکسوں کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم شمسی اور دیگر قابل تجدید توانائی کی اسکیموں کے ذریعے توانائی کی پیداوار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم توانائی کی پیداوار کے لیے فوسل فیول کے استعمال کی مکمل مخالفت کرتے ہیں۔ اس مد میں بجلی کی پیداوار کے لیے تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال فوری طور پر بند کرنا چاہیے۔ ہم آئی پی پیز کو قومیانے کا مطالبہ کرتے ہیں ،جبکہ ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے عام لوگوں پر مزید ٹیکس لگانے کی شرائط پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ واپس لیا جائے اور بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 10 روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اندر ڈیجیٹل تبدیلی کے ذریعے ٹیکس وصولی اور شفافیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ بڑے پیمانے پر چوری کا پردہ فاش کرنے میں حالیہ کامیابیوں کی بنیاد پر ٹیکس فراڈ کا پتہ لگانے اور اس کی روک تھام کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانا بہت ضروری ہے۔ ٹیکس کے بوجھ کو زیادہ منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنے والی مزید ترقی پسند ٹیکس پالیسیوں کی طرف منتقل ہونا پائیدار ترقی کے لیے وسائل فراہم کرے گا۔

مزید برآں، معلومات کی آزادی کے اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے بجٹ مختص کرنے اور اخراجات میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا، جس سے شہریوں کو معلوم ہو سکے گا کہ عوامی فنڈز کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیر منصفانہ ٹیکس کا تدارک معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

جامع اصلاحات کے نفاذ، ٹیکس انصاف کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے اور ترقی پسند ٹیکسیشن کو ترجیح دے کر پاکستان ایک بہتر، منصفانہ اور موثر ٹیکس نظام چلا سکتا ہے جس سے معاشرے کے تمام طبقات مستفید ہوں۔ ہم وارننگ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے مطالبات کے لئے مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ کیا گیا تو ملک بھر کے کسان ملک گیر احتجاج کریں گے۔ یہ احتجاج ستمبر میں ہوگا ، جس کی حتمی تاریخ مشاورت سے طے کی جائے گی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts