خبریں/تبصرے

کیا اسلامو فوبیا کی بحث ڈاکٹر مغیث نے شروع کی؟

فاروق سلہریا

24 جون کو میڈیا سکالر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا انتقال ہو گیا۔ اپنے حلقہ احباب میں ’قاری صاحب ‘ کہلانے والے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ پنجاب یونیورسٹی میں صحافت پڑھاتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مختلف پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے۔

دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت سے وابستہ رہے۔ یہ نظریاتی رجحان زندگی بھر برقرا ر رکھا۔ ان کی وفات پر علمی اور صحافی حلقوں کی جانب سے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اسی سلسلے میں ایک مضمون دی نیوز آن سنڈے میں شائع ہوا۔

’فرسٹ ٹو پوائنٹ آؤٹ اسلاموفوبیا اِن میڈیا‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مضمون کے مصنف ڈاکٹر ظفر اقبال، جو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں میڈیا اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں، نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈ اکٹر مغیث الدین شیخ وہ پہلے میڈیا سکالر تھے جنہوں نے امریکی میڈیا میں اسلاموفوبیا کے رجحان کی نشاندہی کی اور اس پر تحقیق کی۔

ہمارے معزز پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی آف آئیووا میں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے جو پی ایچ ڈی مقالہ جمع کرایا، جس کی بنیاد پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی، اُس میں اگرچہ اسلامو فوبیا کی اصطلاح تو استعمال نہیں کی گئی مگر انہوں نے ثابت کیا کہ مغربی میڈیامیں مسلمانوں اور اسلامی روایات بارے منفی سٹیریو ٹائپس کو پیش کیا گیا ہے۔

کالم میں ایک جگہ ڈاکٹر ظفر لکھتے ہیں: ”In Pakistan, it was Mugheesdin Sheikh who started work on the issue “ اس جملے کی وجہ سے یہ ابہام ابھرتا ہے کہ شائد مغیث الدین شیخ پہلے پاکستانی میڈیا سکالر تھے جنہوں نے یہ کام کیا البتہ اگر پورا کالم پڑھا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے گویا عالمی سطح، بالخصوص مسلم دنیا میں وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے مغربی میڈیا پر تحقیق کی۔ مضمون کی سرخی بھی یہی تاثر دیتی ہے کہ گویا پوری دنیا میں وہ پہلے سکالر تھے جنہوں نے یہ بحث متعارف کرائی۔

ایسا کوئی بھی تاثر سراسر غلط ہے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی پی ایچ ڈی سے کئی سال پہلے ایڈورڈ سعید کی مشہور کتاب ’کوورنگ اسلام‘(1981ء)، جو ایک طرح سے ان کی شہرہ آفاق کتاب ’اورنٹیل ازم‘ کا تسلسل تھی، مغربی میڈیا میں مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے کے بارے میں ہی تھی۔

اسی طرح امریکی میڈیا سکالر جیک شاہین کی کتاب ’دی ٹی وی عرب‘بھی 1984ء میں شائع ہو چکی تھی۔ جیک شاہین کا کام اتنا قابل احترام اور مقبول ہے کہ کسی بھی میڈیا سکالر کی اس سے لا علمی ممکن نہیں۔ اس کتاب میں عربوں اور عرب مسلمانوں بارے امریکی میڈیا میں جو نامناسب کردار سازی ہوتی ہے، اس پر بات کی گئی ہے۔

گویا یہ بات تو طے ہے کہ دنیا یا مسلم ورلڈ سے تعلق رکھنے والے وہ ایسے پہلے سکالر نہ تھے جنہوں نے اسلامو فوبیا کی بات کی (اور اسلاموفوبیا کو میڈیانمائندگی  تک محدود کر دینا بھی انتہائی عجیب سی بات ہے)۔

ایک ثانوی سی بات اور بھی عرض کرنا تھی:

ڈاکٹر ظفر ا قبال خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اورمرحوم مغیث الدین شیخ کی علمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے البتہ قارئین کو اس بات سے آگاہ نہیں کرتے کہ پاکستانی میڈیا میں غیر مسلموں کی نمائندگی بارے مغیث الدین شیخ کے کیا خیالات تھے۔ جس طرح سے ہندؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کو پاکستانی فلموں، ڈراموں، ناولوں اور اخباروں میں ستر سال سے پیش کیا جا رہا ہے کسی سکینڈل سے کم نہیں۔ کم از کم راقم کی نظر سے مغیث الدین شیخ کی کوئی ایسی تحقیق نہیں گزری جس میں پاکستانی میڈیا کی اقلیت دشمنی اور زینو فوبیا پر بحث کی گئی ہو۔ اسی موضوع پر ذاتی طور پر راقم کو خود ڈاکٹر ظفر اقبال کے نظریات میں بھی گہری دلچسپ ہے کیونکہ اسلامو فوبیا پر احتجاج سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔