شاہ میر بلوچ
جیسے ہی پہلی پرواز گوادر کے نئے رن وے پر اتری، اسے پاکستانی حکومت نے ’ترقی اور خوشحالی‘ کی طرف ایک قدم قرار دیا۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے مطابق نیا ہوائی اڈہ پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کی علامت ہے۔ یہ اب ملک کا سب سے بڑا اڈہ ہے اور پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بنایا گیا ہے۔
اس کے باوجود واقعات کی رفتار کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ 20جنوری کو جب اس کا افتتاح کیا گیا تو گوادر کے آس پاس شہر میں سخت سکیورٹی لاک ڈاؤن لگادیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان کی کئی سینئر حکومتی اور عسکری شخصیات تو موجود تھیں، لیکن ان کے چینی حکومتی ہم منصب نمایاں طور پر غیر حاضر تھے، حالانکہ ہوائی اڈے کی تعمیر کے لیے 230ملین ڈالر کا بل چین نے ہی ادا کیا تھا۔
گوادر کو چین کے سپانسرڈ ہوائی اڈے، گہرے پانی کی بندرگاہ اور مجوزہ اقتصادی زون کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے سر کے تاج کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت چین نے تقریباً62ارب ڈالر کے انفراسٹرکچر پر مبنی ’میگا پراجیکٹس‘ کی تعمیر کا وعدہ کیا ہے۔ ان منصوبوں میں نقدی کی کمی کا شکار پاکستان کے لیے ہوائی اڈوں، شاہراہوں، ریلوے، بندرگاہوں اور پاور پلانٹس کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔ سی پیک کا آغاز2015میں چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے ایک اہم منصوبے کے طور پر ہوا تھا، جس کا مقصد چین کو ایشیا اور افریقہ میں تجارتی راستوں تک رسائی اور اثرورسوخ فراہم کرنا ہے۔
ایک ہنگامی خیز دہائی کے بعد سی پیک کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے پسماندہ علاقے بلوچستان میں چین نے ہوائی اڈہ تعمیر کر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم اس صورتحال نے ایک بڑے سکیورٹی بحران کو جنم دیا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
گوادر کو ’پاکستان کا دبئی‘ بنانے کے وعدوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے مقامی لوگوں مین چین کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جو اب الزام لگاتے ہیں کہ اس شہر کو اونچی باڑ لگا کر ہائی سکیورٹی جیل کی طرح بنا دیا گیا ہے، چینی کارکنوں کے لیے الگ جگہیں بنائی گئی ہیں، سکیورٹی چوکیاں اور سڑکوں پر پولیس اور فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔
گوادر میں جن منصوبوں کو مقامی طو رپر ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان میں ایک گدھے کو ذبح کرنے کا کارخانہ ہے، جس کا ابھی تک کام تو شروع نہیں ہو سکا، لیکن یہاں افریقہ سے درآمد کیے جانے والے 10لاکھ گدھوں کو مصنوعات کی تیاری اور چینی ادویات میں استعمال ہونے والے اجزاء کے حصول کے لیے مارا جانا ہے۔
گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کے ارد گرد سمندر تک رسائی بھی محدود ہو گئی ہے، جو منافعے کا 90فیصد چینی آپریٹر کو بھیجتی ہے۔ مقامی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل زندہ رہ سکتے ہیں، کیونکہ انہیں اب آزادانہ طور پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور ماہی گیری کے دوران سکیورٹی فورسز ان کی کشتیوں پر چھاپے مارتی ہیں۔
70سالہ ماہی گیر داد کریم کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پورا سمندر کھو دیا ہے۔ جب ہم مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہاں چوروں کی طرح جا رہے ہیں اورچوری چھپے یہ کام کر رہے ہیں۔ سمندر اب ماہی گیروں کا نہیں رہا، بلکہ یہ اب چینیوں کا ہے۔‘
سی پیک نے پاکستان میں بہت سی عسکری تنظیموں کو دشمن بنا دیا ہے، جن میں اسلامک اسٹیٹ اور پاکستانی طالبان بھی شامل ہیں۔ علاقائی علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے چین پر علاقے کے وسائل کے استحصال کا الزام عائد کیا ہے اور سی پیک کو روکنے کے لیے ایک پرتشدد مہم شروع کر رکھی ہے، جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اکتوبر میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب دہشت گردانہ حملے کے پیچھے بی ایل اے کا ہاتھ تھا، جس میں دو چینی شہری ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل کئی خود کش بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں چینی اور پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
چینی کارکنوں کی حفاظت سی پیک کے لیے اس قدر شدید رکاوٹ بن گئی ہے کہ چینی حکام نے کہا ہے کہ منصوبے کا فیز ٹو ابھی تک شروع نہیں ہوا اور وہ پائپ لائن میں موجود26منصوبوں میں سے کچھ منصوبوں پر ابتدائی اہداف کے مطابق کام کرنے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ چین نے پاکستان سے اپنی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ نکال دیا ہے، اور چینی اہلکاروں کی گوادر میں آمدکے موقع پر اب ملٹری گریڈ سکیورٹی شٹ ڈاؤن ہوجاتا ہے۔
اسلام آباد میں ایک انٹرویو کے دوران پاکستان میں چین کے پولیٹیکل سیکرٹری وانگ شینگ جی نے سی پیک کو درپیش خطرات پر پاکستان پر غیر معمولی طور پر واضح تنقید کی ہے اور ملک میں چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے مستقبل پر ’سنگین خدشات‘ کا اظہار کیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’اگر سکیورٹی بہتر نہیں کی گئی تو اس ماحول میں کون آکر کام کرے گا؟ گوادر اور بلوچستان میں چینیوں کے خلاف نفرت ہے۔ کچھ بری طاقتیں سی پیک کے خلاف ہیں اور وہ اسے سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔“
جہاں تجزیہ کارسی پیک کی سب سے بڑی اقتصادی اور سکیورٹی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں، وہاں پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ چین نے معاشی لحاظ سے بہت کم فائدہ مند منصوبوں پر کام کیا اور بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی ضروری کام نہیں کیا گیا، یعنی شہریوں کو بجلی اور پانی کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کے خاطر خواہ فوائد نظر نہیں آئے۔
شینگ جی نے پاکستانی حکومت پر الزام عائد کیا کہ سی پیک منصوبوں کے بارے میں ’جھوٹی بیان بازی‘ کا استعمال کیا گیا، جس سے مقامی لوگوں نے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان کی طرح بیان بازی پر توجہ نہیں دیتے، ہم صرف ترقی پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر سکیورٹی کی اس قسم کی صورتحال برقرار رہی تو اس سے ڈویلپمنٹ میں رکاوٹ آئے گی۔‘
اس بات پر بھی دیرینہ خدشات موجود ہیں کہ آیا اس سرمایہ کاری کے پیچھے چین کے حقیقی مقاصد معاشی ہیں یا اس سے زیادہ عسکری طور پر تذویراتی مقاصد ہیں۔بہت سے لوگوں نے سوال کیا ہے کہ گوادر کو پاکستان کے سب سے بڑے ہوائی اڈے کی ضرورت کیوں پڑے گی، کیونکہ گوادر تو تقریباًڈیڑھ لاکھ لوگوں کا شہر ہے، جو زیادہ تر غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں۔ مقامی طور پر لوگوں نے اسے تجارتی ’سفید ہاتھی‘ قرار دیا ہے۔ گہرے پانی کی بندرگاہ بھی چین کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے بہت کم تجارتی مالیت کی ثابت ہوئی ہے، اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے5سالوں میں بندرگاہ پر نہ ہونے کے برابر تجارتی جہاز اتارے گئے، جن میں سے زیادہ تر افغانستان جانے والے جہاز راستے میں ٹرانزٹ کے لیے اتارے گئے۔ گوادر کے ایک اہلکار کے مطابق یہ بندر گاہ فی الحال خسارے میں کام کر رہی ہے۔
گوادر میں سی پیک پر کام کرنے والے کئی پاکستانی حکام نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد پر انہیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ منصوبے چینیوں کے لیے خالصتاً تجارتی کوشش نہیں ہے۔ اس کی بجائے یہ بڑے پیمانے پر محسوس کیا گیا ہے کہ چین بالآخر گہرے پانی کی بندرگاہ کو اپنی بحریہ کے لیے ایک سٹریٹیجک فوجی اڈے کے طور پر اور ہوائی اڈے کو اپنی فوج کے لیے وسائل کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چینیوں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر کام کرنے والے پاکستان حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر تصدیق کی کہ یہ ’چین کی طرف سے ایک پرانا مطالبہ تھا‘ کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے) کی فورسز کو چینی ورکرز پر حملوں کا دفاع کرنے کے لیے پاکستان بلایا جا سکتا ہے، اور چینی بحریہ کے جہازوں اور آبدوزوں کو بھی گوادر بندرگاہ تک رسائی حاصل ہوگی۔
ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ ’چین سی پیک سے متعلق منصوبوں پر اپنے کارکنوں کی حفاظت کے لیے پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں کی موجودگی چاہتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ اپنی بحریہ کے لیے گوادر بندرگاہ رکھنا چاہتے ہیں۔ گوادر ہوائی اڈہ بھی اسی مطالبے سے منسلک ہے۔‘
ذرائع نے تصدیق کی کہ بیجنگ نے حال ہی میں ان تذویراتی مطالبات پر دباؤ بڑھایا ہے، کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال مزید غیر یقینی ہو گئی ہے اور چین سی پیک میں تاخیر پر ’مایوس‘ ہو گیا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ بیجنگ نے پاکستان کو ایک کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو قرضوں کی ادائیگیوں کو رول اور نہیں کیا جائے گا، یا مستقبل میں سی پیک کی سرمایہ کاری روک دی جائے گی۔ یہ پاکستان کے لیے ایک اہم دھچکا ہوگا، جو بدستور ایک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور اس کے پاس غیر ملکی کرنسی اور سرمایہ کاری کے چند ہی دیگر ذرائع ہیں۔
سی پیک منصوبوں کو تذویراتی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے چین کے مبینہ عزائم بھارت اور امریکہ دونوں کے لیے ایک دیرینہ اضطراب کا باعث ہیں، جو چین کو سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ واشنگٹن نے خاص طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو ’جبری فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
اس معاملے سے براہ راست آگاہ افراد کے مطابق یہ پردے کے پیچھے امریکی دباؤ تھا، جس نے چین کے ساتھ بعض معاہدوں کو یقینی بنایا، جیسے کہ ایک بڑی چینی ریاستی پاور کمپنی نے پاکستانی پاور کمپنی کے الیکٹرک میں اکثریتی شیئرز خریدناتھے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
پاکستان اب بھی سی پیک کے لیے چین پر اپنے گہرے انحصار اور امریکہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش میں توازن پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ بیجنگ کو مشتعل کرنے کے لیے یقینی سمجھے جانے والے اقدام کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے دوران وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک امریکی لابی گروپ سے ملاقات کی، جو اپنے چین مخالف موقف کے لیے جانا جاتا ہے۔
ایشیا گروپ کے پرنسپل عزیر یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان’اس وقت تک چینی فوجی موجودگی کے راستے پر گامزن نہیں ہونا چاہے گا، جب تک کہ اس کے پاس کوئی چارہ باقی نہ رہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس کے ممکنہ مضمرات کو ذہن میں رکھتا ہے، جو خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہت زیادہ خرابی کی صورت ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر چین واقعی ایک فوجی اڈے کے لیے زور دے رہا ہے تو مستقبل میں ایسا ہونا مکمل ناممکن نہیں ہے۔‘
فوجی اور حکومتی شخصیات دونوں نے اس بات کی تردید کی کہ سی پیک کو چینی فوجی تذویراتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لیے کوئی معاہدہ کیا گیا تھا۔ منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال نے اس طرح کے کسی بھی تصور کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان حال ہی میں طے پانے والا مشترکہ سکیورٹی معاہدہ صرف اور صرف کوآرڈینیشن اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے تھا اور اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا چینی فوج کے پاؤں پاکستانی زمین پر ہوں گے۔انکا کہنا تھا کہ ’میں نے چین کی کسی ایسی درخواست کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ پاکستان میں اپنی سکیورٹی یا پی ایل اے لے آئیں گے۔ایسی کوئی درخواست ٹیبل پر نہیں ہے۔ کوئی چینی سکیورٹی فورس پاکستان نہیں آئے گی۔‘
بہرحال، وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستانی حکومت اس وقت چین کے ساتھ اپنے مذاکرات میں انتہائی کمزور پوزیشن میں ہے۔ گزشتہ سال اپنے دورہ چین سے شہباز شریف کو بہت کم فائدہ ہوا اور چینی توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے 17ارب ڈالر کی اضافی رقم کی پاکستان کی درخواست پر بیجنگ نے کوئی خاص جواب نہیں دیا۔
امریکی ادارہ برائے امن میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ایک سینئر ماہر اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین نے اپنے سی پیک کے عزائم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن اس کے پاکستان سے مکمل دستبردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ اس کی جیوپولیٹیکل حکمت عملی کے لیے بہت اہم ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’اب چینیوں کا پاکستان میں بہت بڑا سٹیک ہے، وہ اس کے کام نہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔‘
(بشکریہ: دی گارڈین، ترجمہ: حارث قدیر)