لاہور (جدوجہد رپورٹ)ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے ساتھ بات چیت کے نئے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہم نے ایک بار کئی سالوں تک پابندیاں ختم کرنے اور بات چیت کی راہ آزمائی لیکن اس سے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ وہ علاقائی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور ہمیں مداخلت نہ کرنے کا کہتے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کے پاس ایٹمی میزائل ہیں لیکن ہمیں کہتے ہیں کہ میزائل نہ رکھیں۔ اس سب کا آپ سے کیا تعلق ہے؟ آپ سب سے پہلے خود کو درست کریں۔“
خامنہ ای نے طویل عرصے تک مغرب کے ساتھ مذاکرات پر تنقید کی ہے لیکن انہوں نے جوہری معاہدہ طے پانے پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2015ء میں ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پرپابندی کے عوض اس سے عالمی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء کو اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکہ چاہتا ہے کہ ایران میزائل پروگراموں پر بھی پابندی لگائے اور مشرق ِوسطی میں مداخلت کم کرے۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ میزائلوں پر بات چیت نہیں کرے گا اور جب تک امریکہ جوہری معاہدے پر واپس نہیں آتا اور غیر مشروط پابندیوں کو ختم نہیں کرتا تب تک کسی قسم کی بات چیت کا آغاز نہیں ہو سکتا۔
رائٹرز کے مطابق نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے عملے کا کہنا ہے کہ انکا مقصد معاہدے کو بحال کرنا ہے بشرطیکہ ایران اسکی پاسداری کرے لیکن تجزیہ کاروں نے فوری طور پر اس امکان کو رد کیا ہے کیونکہ مخالفین دونوں اضافی وعدوں کے خواہاں ہونگے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد ایرانی معیشت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ صدر روحانی کی جانب سے جومعیار زندگی میں بہتری کے جو دعوے کئے گئے تھے انہیں بھی دھچکا لگا ہے۔