جمیل خان
ہمیں پرندوں کی چہچہاہٹ بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن انہیں پنجروں میں قید کرکے رکھنا ہمیں بالکل پسند نہیں ہے اس طرح ان کی فطری خوبصورتی اور آزادی خاک میں مل جاتی ہے۔ پنجروں میں رہنے والے پرندے کئی نسلوں سے اس قید کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب تو ان کی اُڑان محض ان کے پنجروں کی حد سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
ہم نے دیکھا ہے کہ پڑوسیوں کے گھروں میں پالے گئے پرندوں میں سے کوئی ایک پرندہ کسی طرح قید سے آزاد ہوبھی جاتا ہے تو وہ یا تو بلّی یا پھر چیل کوّوں کی خوراک بن جاتا ہے یا کبھی قید سے آزاد ہونے والا پرندہ ہمارے گھر کی چھت پر یا صحن میں آن گرتا ہے اور بچوں کے ہاتھوں باآسانی پکڑا جاتا ہے۔ انجام کار پڑوسی کے حوالے کیے جانے کے بعد دوبارہ پنجرے میں قید کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسلوں کی اس سزائے قید نے ان کے اندر اونچی اُڑان بھرنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ اب وہ مرغیوں کی مانند محدود اُڑان بھرنے والے پرندے بن کر رہ گئے ہیں۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پنجروں میں پلنے بڑھنے والے پرندوں کے ساتھ اگر کسی آزاد منش پرندے کو پکڑ کر ڈال دیا جائے تو اس نئے مہمان کے ساتھ اکثر ان کی نہیں بن پاتی ہے اور وہ اسے مار مار کر زخمی کردیتے ہیں۔
پرندوں کی مثال کے ذریعے دراصل ہم آپ پر کچھ خاص لوگوں کی ذہنی سطح کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ایک اور مثال پیش کرنا چاہیں گے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے محترم بھائی حسنین جمال صاحب نے بونسائی درخت کے بارے میں ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ انہوں نے درختوں کو بونسائی بنانے کی ترکیب بھی بیان کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں بھی پودوں اور درختوں سے بے حد لگاؤ ہے اور اس وقت جبکہ گھر میں درخت لگانے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے، گملوں میں پودے لگا کر اپنا شوق پورا کررہے ہیں۔ ہمیں بونسائی درخت تیار کرنے کی ترکیب کا علم اس وقت سے ہے، جب کراچی کے کچھ لوگ ہی ایسے تھے جو بونسائی درخت اپنے گھروں میں تیار کرتے تھے۔ اب تو بونسائی درخت بہت سے گھروں کے ڈرائنگ رومز کی زینت بنے نظر آجاتے ہیں۔ اُس وقت اگر ہم نے بونسائی درخت کی تیاری کا آغاز کیا ہوتا تو اب تک اس طرح کے کئی درخت ہمارے پاس بھی موجود ہوتے۔
دراصل ہم نے کبھی کسی درخت کو بونسائی اس لیے نہیں بنایا کہ ہمیں پرندوں کو قید کرنے کی طرح بونسائی کا عمل بھی پسند نہیں، ہمارے خیال میں یہ طریقہ کار درختوں کو دولہے شاہ کے چوہوں کی مانند مختصر کرکے انہیں اسی طرح کی اذیت دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ہمیشہ قد آور درخت ہی لگائے اور کبھی ان کے فطری قد کو مختصر کرکے ایک ڈیڑھ فٹ کی ٹرے میں محدود کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سچ پوچھیے تو آج کل نیوز چینلز پر براجمان بہت سے دانشور، مفکرین اور بالخصوص تجزیہ نگار ہمیں بونسائی درخت ہی معلوم ہوتے ہیں، جن کی ذہنی و فکری نشوونما نہ ہوسکی اور ان کا شعور بونسائی درخت کی طرز پر محدود ہو کر رہ گیا۔
اگر بونسائی درختوں کی فلمبندی کچھ خاص طریقے سے کی جائے تو پھرتیار کی گئی وڈیو میں یہ درخت بلند و بالا درختوں کی مانند محسوس ہوں گے۔ کسی زمانے میں جب کمپیوٹر گرافک ایفکٹس کے سافٹ ویئر ایجاد نہیں ہوئے تھے تو بعض فیچر فلموں میں کسی درخت کو کار پر گرانے کا منظر بونسائی درخت کو کھلونا کار پر گرا کر فلمایا جاتا تھا۔
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز پر براجمان بونسائی مفکرین، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی کچھ اسی طریقے سے یوں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ حقیقی اور قد آور دانشور معلوم ہوتے ہیں۔
بلکہ ہمارا تو یہ بھی خیال ہے کہ نیوز چینلز پر براجمان بیشتر دانشوروں کی ذہنی نشوونما ایک مختصر سے پنجرے میں ہوئی ہے۔ ان کی ذہنی پرواز قومی، مذہبی اور ثقافتی روایات کے پنجروں کی سلاخوں تک محدود ہے۔ جس طرح کہ پنجرے میں پالے گئے پرندوں کی پرواز چند فٹ سے زیادہ نہیں ہوتیْ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دانشور بھی آزاد فکر کے حامل کسی فرد کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کیفیت ایسے موقع پر نسل در نسل پنجروں میں پروان چڑھنے والے پرندوں کی مانند ہوتی ہے جو آزاد فضاؤں میں پرواز کی صلاحیت رکھنے والے پرندوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
محترم بھائی یاور ماجد ایسے دانشوروں کو بوٹیائے ہوئے دانشور کا خطاب دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ چاہیں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نیوز چینلوں کے بوٹیائی دانشور!