اسلام آباد (جدوجہد رپورٹ) گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق خبر کی اشاعت کرنے پر جنگ گروپ کے صحافی انصار عباسی، چیف ایڈیٹرمیر شکیل الرحمان، ایڈیٹر عامر غوری اور سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ تنقید نہیں بلکہ عدالت پر حملہ ہے، اہم حقائق کو جانچے بغیر ایک بڑے اخبار نے یہ حلف نامہ شائع کر دیا۔ ہمارا احتساب ضرور کریں مگر نظام عدل کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
انہوں نے صحافی انصار عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یا مسٹر شمیم ثبوت لے آئیں تو سابق چیف جسٹس کے خلاف کارروائی سے بھی بالکل ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانت کے کیس پر اثر انداز ہونے سے متعلق بیان حلفی اور خبر کی اشاعت کے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے تمام فریقین کو منگل کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر لوگوں کا عدالت سے اعتماد اٹھا جائے گا تو پھر افراتفری ہو گی اور آپ نے بدقسمتی سے یہی کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ دی نیوز کی ہیڈ لائن تنقید نہیں بلکہ عدالت پر حملہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ میرا احتساب ہے، آپ نے جج کے نام کی بجائے خالی جگہ چھوڑ دی جس سے ہم پر حرف آیا ہے۔
انصار عباسی نے عدالت میں کہا کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دیں مگر اس معاملے پر تحقیقات ہونی چاہیے۔
تاہم ایڈیٹر عامر غوری سے جب چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسا حلف نامہ برطانیہ کا کوئی اخبار شائع کر سکتا ہے، تو عامر غوری کا کہنا تھا کہ اگر دستاویزات ہوں اور فریقین کا موقف لیا ہو تو پھر شائع ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل جنگ گروپ سے منسلک اخبارات میں صحافی انصار عباسی کی یہ خبر شائع ہوئی تھی۔ مذکورہ خبر گلگت بلتستان کے چیف کورٹ کے سابق چیف جج رانا شمیم کی جانب سے دیئے گئے ایک بیان حلفی سے متعلق تھی۔
بیان حلفی میں یہ لکھا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار 14 جولائی 2018ء کو ایک 27 رکنی وفد کے ہمراہ گلگت بلتستان آئے تھے۔
بیان حلفی میں انکا کہنا تھا کہ ایک روز وہ لان میں اپنی مرحومہ اہلیہ کے ہمراہ میاں ثاقب نثار اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان پریشان بیٹھے تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے اور انھیں ہدایات دے رہے تھے کہ فلاں جج کے پاس جاؤ۔
رانا شمیم کے بقول پاکستان کے سابق چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ اس جج سے میری بات کرواؤ اور اگر بات نہ ہو سکے تو ہائی کورٹ کے اس جج کو میرا پیغام دے دیں کہ جولائی 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔
بیان حلفی کے مطابق انھوں نے میاں ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہیں تو تمام معاملات کو ایک طرف رکھیں اور اپنی چھٹیاں گزاریں۔ پہلے تو ثاقب نثارناراض ہوگئے لیکن کچھ دیر کے بعد لہجہ بدلتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کی کیمسٹری کو نہیں سمجھتے اور پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے بہت مختلف ہے۔
بیان حلفی کے مطابق جب موبائل پر گفتگو کے دوران دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو میاں ثاقب نثار پْرسکون ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔
تاہم سابق چیف جسٹس نے اس بیان حلفی کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، لیکن سابق چیف جج کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے۔
دوسری طرف نوجوان صحافی اسد علی طور نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات سے قبل تمام تر انجینئرنگ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ سمیت دیگر 2 ججوں کا اہم کردار رہا ہے۔ ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا تھا، جس میں مجموعی طور پر 5 افراد تھے، 4 جج تھے جبکہ مذکورہ گروپ کے ایڈمن ایک حساس ادارے کے سربراہ تھے۔
اپنے وی لاگ میں انہوں نے انتخابات میں امیدواران کو نااہل کروانے سمیت کچھ دیگر اقدامات کے حوالے سے بھی اہم دعوے کئے ہیں۔