ڈان لا بوٹز
ڈان لا بوٹز امریکی جریدے ’پالیٹکس‘ کے شریک مدیر ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون فورتھ انٹرنیشنل کے ترجمان ’انٹرنیشنل وئیو پوائنٹ میں شائع ہوا: مدیر
وسط مدتی انتخابات کے لئے انتخابی مہم شروع ہوتے ہی صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دوسرے پر حملے شروع کر دئیے ہیں، گو بایاں بازو اس سیاسی مہم میں غیر متعلق ہی ہے۔ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی پر سوشلسٹ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی میں جو چند سوشلسٹ ہیں، پارٹی ان سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ بائیں بازو کے معاملے میں جو کمی ہے وہ ہے ایک عوامی تحریک اور سیاسی پروگرام کا نہ ہونا۔
یکم ستمبر کو فلاڈیلفیا کے انڈیپنڈینس ہال، جہاں امریکی آئین لکھا گیا اور جہاں سے امریکی آزادی کا اعلان ہوا، میں کھڑے ہو کر خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا ”اس رات جب میں یہاں کھڑا ہو کر بات کر رہا ہوں، عین اس وقت جمہوریت اور برابری کو خطرات لاحق ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کا نعرہ لگانے والے ریپبلکن اس انتہا پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے اس عوامی جمہوریہ کی بنیادوں کو خطرہ ہے“۔ اس سے قبل جو بائیڈن نے ان لوگوں کو نیم فاشسٹ قرار دیا۔ انہوں نے یہ تقریر لیبر ڈے والے ویک اینڈ پر کی جب مڈ ٹرم انتخابات کے لئے مہم شروع ہوتی ہے۔
جو بائیڈن کی اس تقریر سے چند دن قبل، ٹرمپ نے مطالبہ کیا تھاکہ انہیں صدر بنایا جائے کیونکہ 2020ء کے الیکشن وہ جیتے تھے یا فوری انتخابات کرائے جائیں۔
سابق صدر کے خلاف اس وقت تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک تو ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جارجیا کے انتخابات میں مداخلت کی۔ دوسرا، ان پر الزام ہے کہ جب انہوں نے وائٹ ہاؤس خالی کیا تو وہ غیر قانونی طور پراپنے ساتھ 11179 ایسی دستاویزات لے گئے جن میں سے 18 ٹاپ سیکرٹ جبکہ 54 سیکرٹ تھیں۔ یہ تحقیقات وفاقی حکومت کے تحت ہو رہی ہیں۔ ان پر قانون توڑنے یا انصاف کی راہ میں حائل ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ اپنے گھر کی تلاشی پر ٹرمپ نے امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی کو ’بے رحم راکشس‘ قرار دیا ہے۔ ان کے حامی ان کے ساتھ ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 40 فیصد رائے دہندگان انہیں صدر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ دس فیصد کا خیال ہے کہ حکومت بدلنے کے لئے تشدد کا سہا رالینا درست عمل ہو گا۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلکن، دونوں کے 69 فیصد حامی سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ اِدہر بائیڈن جمہوریت کو بچانے کی بات کر رہے ہیں تو اُدہر ٹرمپ ’امریکہ بچاؤ‘ ریلیاں کر رہے ہیں جہاں ہزاروں لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ان جلسوں میں ٹرمپ بائیڈن کو’ریاست دشمن‘ اور ڈیموکریٹس کو سوشلسٹ قرار دیتے ہیں۔ انڈیپنڈس ہال میں جو تقریر بائیڈن نے کی، ٹرمپ نے اسے ”کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے کی جانے والی سب سے زیادہ نفرت انگیز، شر انگیز اور پھوٹ ڈالنے والی تقریر قرار دیا“۔ انہوں نے کہا ”جمہوریت کو خطرہ ریڈیکل لیفٹ سے ہے نہ کہ دائیں بازو سے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ تحریک میں شامل ریپبلکن تو جمہوریت بچانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔
امریکی بایاں بازو
امریکہ کا ریڈیکل لیفٹ درحقیقت ایک چھوٹی اقلیت ہے گو امریکی تاریخ میں پہلی بار اتنے سوشلسٹ ارکان کانگرس تک پہنچے ہیں۔ یہ سب سوشلسٹ دراصل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے جیت کر آئے ہیں۔ کانگرس کے ارکان کی تعداد 535 ہے۔ 100 ارکان سینیٹ ہیں، 435 ایوان زیریں کے رکن ہیں۔ ان میں سے 5 سوشلسٹ ارکان یہ ہیں: سینیٹ میں برنی سینڈرز جبکہ ایوان زیریں میں الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز، رشیدہ طلیب، کوری بش اور جامال بومین۔
ریاست نیو یارک کی اسمبلی میں 213 ارکان ہیں مگر ان میں 3 سوشلسٹ ہیں۔ چند دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں میں بھی اکا دکا سوشلسٹ موجود ہیں۔ جب پرائمریز کے لئے الیکشن ہوئے تو اکثر جگہ سوشلسٹ یا دیگر ترقی پسند امیدوار عمومی طور پر ماڈریٹس کے ہاتھوں ہار گئے۔
امریکہ میں بائیں بازو کا سب سے بڑا گروہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ ہے جس کے ارکان کی تعداد 94 ہزار ہے۔ اس کے بعد کیمونسٹ پارٹی ہے جس کے ارکان کی تعداد 5000 ہے۔ دونوں ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے ہیں۔ بہت سے چھوٹے لیفٹ گروہ لیبر پارٹی تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں جبکہ دیگر ایسے گروپ آزادانہ طور پر سوشلسٹ امیدوار انتخابات میں کھڑا کرتے ہیں جو کم ہی کبھی جیتے ہوں گے۔ کشاما سوانت ایسی ہی ایک استنا ہیں جو سیاٹل سٹی کونسل میں کونسلر منتخب ہوئیں۔ گرین پارٹی کے تقریباً 50 ہزار ارکان ہیں۔ ان کے بعض ارکان مقامی کونسلوں میں منتخب ہوئے۔ وہ اپنے ہی ٹکٹ پر پر الیکشن لڑتے ہیں مگر کسی ریاستی اسمبلی یا کانگرس میں ان کا کوئی رکن نہیں ہے۔ 2020ء کے صدارتی انتخاب میں گرین پارٹی کے امیدوار ہاوئی ہاکنز کو 0.2 فیصد ووٹ ملے۔
اکثربائیں بازو کے کارکنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جمہوریت کے دفاع کے لئے مزدوروں، خواتین، پیپل آف کلر کو منظم کیا جائے مگر ان کی اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ 2020ء میں جب بلیک لائیوز میٹر نامی تحریک چلی تو اس میں ڈیڑھ دو کروڑ لوگوں نے حصہ لیا۔ ایسی تحریکوں کو سیاست کی جانب آنا چاہئے تا کہ طاقت کا توازن بدلا جا سکے۔