نقطہ نظر

آمریت میں میڈیا ترقی نہیں کرتا

قیصرعباس

کسی بھی شخص کے لئے بیک وقت ذرائع ابلاغ کا ماہر، مشرقِ وسطیٰ کا محقق اور تحریکِ نسواں کا علمبردارہونا قدرے ناممکن سا نظرآتا ہے لیکن مصری نثراد امریکی اسکالرڈاکٹر سحرخمیس جو ا مریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کی پرو فیسر ہیں، ان تمام خصوصیات کی حامل ہیں۔ وہ ان موضوعات پرنہ صرف ترقی پسند نقطہ نظررکھتی ہیں بلکہ بغیر کسی جھجک کے ا ن پر اظہارِ خیال کی جرات بھی رکھتی ہیں۔

مسلم اور عرب ممالک میں خواتین کے حقوق کی علمبردارہونے کی حیثیت سے سحر کی مسلمان خواتین کے گوناگوں مسائل پر گہری نظرہے۔ اس موضوع پر ان کی نئی کتاب ”عرب خواتین کا سماجی اور سیاسی احیا اور ایکٹوزم: نا مکمل صنفی انقلابات“ مشرق وسطی میں خواتین کے مسائل پر ایک نئے بیانئے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہر ابلاغ عامہ کی حیثیت سے وہ عالمِ عرب میں دانشوروں کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور صحافیوں پر پابندیوں کے خوالے سے فکرمند ہیں۔ وہ قطر یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات اور اطلاعاتی سائنس کی صدر اور یونیورسٹی آف شکاگو میں میلن اسلامک اسٹڈیز کی وزٹنگ پرو فیسر بھی رہ چکی ہیں۔ ان کی برقیاتی ابلاغیات پر دو کتابیں عرب ممالک میں ڈیجیٹل میڈیا کے سیا سی، سماجی اور مذہبی اثرات پر اہم حوالہ تصور کی جاتی ہیں۔ ان ہی علمی اور پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر سحر کو کئی اعزازات سے نوازا گیاہے اور وہ بین الاقوامی اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی جرائد کی مدیر بھی ہیں۔

اس انٹرویومیں انہوں نے مسلم معاشروں میں آزادی اظہار سے لے کرصحافیوں کی حالتِ زار اور جمہوریت سے تحریکِ نسواں تک ہر موضوع پر اظہارخیال کیاہے۔

آپ کے زیرِادارت ایک نئی کتاب حال ہی میں آئی ہے جس کا موضوع ”عرب ممالک میں تحریک نسواں کے مسائل“ہے۔ اس کے محرکات کیا ہیں اور یہ کس طرح دوسری کتابو ں سے مختلف ہے؟

میری نئی تصنیف ”عرب خواتین کا سماجی اور سیاسی احیا اور ایکٹوزم: نا مکمل صنفی انقلابات‘‘ عرب ممالک میں خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہے اور اکیسویں صدی میں ان پر اثرانداز ہونے والے سیاسی، سماجی اور قانونی پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں مشرق ِوسطی، امریکہ اور جاپان کے گیارہ مصنفین کے ساتھ”عرب بہار“ اورعلاقے کے دیگرملکوں کے مصنفین بھی شامل ہیں۔ اس تصنیف کا مقصد عرب خواتین سے متعلق بہت سی قیاس آرائیوں کو ختم کرناہے۔ یہ خواتین ہر لحاظ سے باصلاحیت ہیں لیکن معاشرتی طورپر انہیں تین طریقوں سے منظرعام پرنہیں آنے دیا جاتا۔ پہلے تو یہ کہ انہیں سماجی اور اقتصادی طورپر پیچھے رکھاگیاہے۔ وہ خواتین جو روزانہ بارہ سے تیرہ گھنٹوں تک کام کرتی ہیں ان کے کام کو اقتصادی سطح پرنہ تو تسلیم کیاجاتا ہے نہ اس کا معاوضہ دیاجاتاہے۔ دوئم یہ کہ میڈیا میں انہیں ہمیشہ ایک ہی طرح کے منفی کرداروں میں دکھایاجاتاہے اگرچہ اپنی زندگی میں وہ ایک سے زیادہ حیثیتوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاًمیرے ملک مصر میں خواتین کئی طرح کے لباس اور پیشوں میں نظرآتی ہیں مگر میڈیا میں یاتو ان کے جنسی پہلووں کو اجاگر کیاجاتا ہے یا ان کو معاشرے کے ایک کمتر رکن کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔ تیسرا یہ کہ تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجمو عی طورپر اس کتاب کے ذریعے کوشش کی گئی ہے کہ خواتین کو معاشرے میں ان کا مساوی مقام اور ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے۔

جب آپ یہ کہتی ہیں کہ عالمی پیمانے پر تحریکِ نسواں کی کئی جہتیں ہیں جنہیں زیادہ تر اکائی سمجھاجاتاہے تو آپ مغربی اور عرب تحریکوں میں کیا فرق دیکھتی ہیں؟

یہ صحیح ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تحریکِ نسواں کوایک اکائی کے طورپر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ہر معاشرے میں ان کی ہیت الگ الگ ہے۔ مغربی ممالک، اسلامی ممالک اور مشرق میں تحریک نسواں اپنے اپنے ماحول کی بنیاد پر مختلف شکلوں میں موجود ہے اور ان کی ترجیحات بھی الگ ہیں۔ ہر جگہ خواتین کے حقوق کی تحریکوں کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل مختلف ہیں جنہیں ایک نظر سے دیکھنا غلط ہے۔ ان میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ یہ تحریکیں خواتین کی صنفی مساوات، ان کے حقوق اور ا ن کے سماجی وقار کی بحالی کی بات کرتی ہیں۔ خواتین کو آج میز پر برابر کی جگہ دینا ضروری ہے ورنہ وہ ہمیشہ کی طرح کھانے کا مینو بنی رہیں گی۔

بیشتر محققین نے پیش گوئی کی تھی کہ ”عرب بہا ر“ اس علاقے میں سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا لیکن تیونس کے علاوہ یہ تبدیلی کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں مشرق ِوسطی میں آمریت اور بادشاہت سے جمہوریت کی جانب کوئی پیش قدمی متوقع ہے؟

میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکی ہوں۔ ہر ملک اپنے سیاسی او ر اقتصادی حالات کے تحت جمہوریت کی تحریکوں سے متاثر ہواہے۔ تیونس میں بیرونی مداخلت نہیں تھی اور وہاں نوے فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کی آبادی بھی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ان وجوہات کی بناپر وہاں جمہوریت کامیاب ہوئی۔ اس کے مقابلے میں شام لاتعداد بیرونی طاقتوں کی آماجگاہ ہے اور وہاں سماجی تفریق نے معاشرے کو تقسیم کردیاہے۔ ان ہی حالات کے نتیجے میں مصر میں بھی فوجی آمریت دوبارہ براجمان ہوئی اور بحرین چھوٹی ریاست ہونے کے سبب عوامی تحریک کو کچلنے میں کامیاب رہا۔

مشرقِ وسطی میں آمریت اور بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریت کے کیا امکانات ہیں؟ اس بات کا جواب بھی ہر ملک کے حالات پرہے اور یوں لگتاہے کہ ان ملکوں میں جمہوریت کاقیام مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا لیکن ایک امید یہ ہے کہ علاقے کی ستر فیصد آبادی کی عمر تیس سال یا اس سے کم ہے۔ یہی نوجوان جونئی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے لیس ہیں ہمارے مستقبل کا روشن ستارہ ہیں۔ یہ تبدیلی تو آنی ہے لیکن کب آئے گی اس کا جواب مشکل ہے۔

پاکستان، بھارت اور ترکی سمیت آج پوری دنیا میں آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ صحافی آج بے حد دباؤ کا شکار ہیں اور کچھ جگہوں پر تو تشد د اور قتل کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ آپ کی نظرمیں اس کی کیا وجوہات ہیں؟

عرب ملکوں میں آزادی اظہار کاریکارڈ بہترنہیں ہے اور اس کی وجہ مختلف ملکوں میں اپنے مخصوص حالات ہیں۔ فریڈم ہاوس اور کمیٹی ٹو پرو ٹیکٹ جرنلسٹز (CPJ) جیسی کئی تنظیموں نے اس خطے میں صحافیوں پر پابندیوں اور آزادی رائے پر قدغنوں کی نشاندہی کی ہے۔ سعودی عرب کے صحافی جمال خاشوگی کا قتل صرف ایک مثال ہے اور بھی بہت کچھ ہورہاہے۔ بے شمار سعودی خواتین جو انسانی حقوق کی علمبردار ہیں قید کردی گئی ہیں۔ مصر میں ساٹھ ہزار انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور بلاگر جیلوں میں ہیں۔

مشرق ِوسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں ذرائع ابلاغ نے اس طرح ترقی نہیں کی جس طرح مغربی ممالک میں ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سب سے اہم وجہ آمریت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا پرجتنی زیادہ بندشیں ہوں گی لوگوں کا ان پر اعتبار بھی کم ہوگا۔ یہاں میڈیا ہا ؤسز اقتصادی طورپر مستحکم نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ادارے کمزور ہیں اور صحافیوں کی تربیت کے مواقع بھی بہت کم ہیں۔ ان حالات میں عمومی طورپر میڈیا تنزلی کی طرف گامزن ہے۔

عام طورپریہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان ملکوں میں تعلیم یافتہ اور کام کرنے والی خواتین کو مساویانہ حیثیت نہیں دی جاتی اور انہیں اقتصادی، سیاسی، مذہبی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں مردکے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتاہے۔ کیا ہمیں جدیداسلامی معاشرے میں خواتین کی حیثیت کوایک نئے سرے سے سمجھنے کی ضرورت ہے؟ اکثر یہ بھی دیکھاگیاہے کہ مسلم مما لک میں سوشل میڈیاپر خواتین صحافیوں کو جنسی تضحیک اور نازیبازبانی حملوں کانشانہ بنایا جاتاہے۔ اس بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟

جب بھی خواتین گھر سے باہر کام کرتی ہیں مرد حضرات انہیں تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ رویے اس لئے ہیں کہ ہمارے پدرسری معاشروں میں عورت کو گھر کی زینت بنانے پر زور دیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی عورتیں گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں یا صحافت کی دنیا میں میں قدم ر کھتی ہیں انہیں طنز اور جنسی جملے بازی کے ذریعے کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں خواتین کو خوفزدہ ہونے کی بجائے آگے بڑھ کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔