خبریں/تبصرے

مظاہرین کے خلاف ایرانی فورسز کے کریک ڈاؤن کی ویڈیوز وائرل، غصہ بڑھ رہا ہے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) سوشل میڈیا پر ایرانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ 7ہفتوں سے جاری تحریک کو ختم کرنے کیلئے ریپرز سے لے کر ماہرین اقتصادیات اور وکلاء تک کی اہم شخصیات کی گرفتاریوں کیس اتھ وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے، جس کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق 16 ستمبر کو مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی ہراست میں موت کے بعد ہونے والے مظاہروں نے ایران کی مذہبی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگ سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی موت کا مطالبہ کرنے والے ملک گیر مظاہرے 1979ء کے بعد ایران کے حکمرانوں کیلئے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک قرار دیئے جا رہے ہیں۔

پاسداران کے سربراہ کی سخت وارننگ کو مسترد کرتے ہوئے ایرانیوں نے خونریز کریک ڈاؤن کے باوجود گلیوں میں رہ کر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا اور گرفتاریوں کے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

22 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ جنوبی تہران کی ایک سڑک پر رات کے وقت ایک درجن کے قریب پولیس اہلکاران ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ موٹر سائیکل پر سوار اہلکاروں نے اسے تشدد کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کیا اور دوسرے نے اسے قریب سے گولی مار دی۔مظاہرین پر تشدد کی دیگر ویڈیوز بھی آن لائن پھیل رہی ہیں۔

ایران کی پولیس نے منگل کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ایک ویڈیو کی جانچ پڑتال کیلئے ایک خصوصی حکم جاری کیا گیا ہے، جس میں پولیس اہلکاروں کو شہری کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

خبررساں ادارے کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ پولیس سخت ار غیر روایتی سلوک کو منظور نہیں کرتی، مجرم پولیس اہلکاروں کیساتھ یقینا قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔

نیوز ایجنسی کے مطابق تحریک کے دوران تشدد سے اب تک 300کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 46نابالغ بھی شامل ہیں۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے کم از کم 36ارکان بھی مارے گئے ہیں۔

133 شہروں، قصبوں اور 129 یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہروں میں تقریباً 14 ہزار 160 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں تقریباً 300 طلبہ بھی شامل ہیں۔

اس بحران نے ایران کی کرنسی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بدھ کو غیر سرکاری مارکیٹ میں امریکی ڈالر 3 لاکھ 42 ہزار 600 ریال تک فروخت ہو رہا تھا، جو کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اپنی قدر کا تقریباً 7 فیصد کم ہے۔

پیر کی رات سکیورٹی فورسز نے ممتاز ماہر اقتصادیات داؤد سوری کے گھر جا کر انہیں گرفتار کر لیا۔ افسران ان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون اپنے ساتھ لے گئے۔ گرفتاری کے بعد ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا گیا کہ وہ ایون جیل میں ہیں۔

ایرانی میڈیا نے بدھ کے روز مشہور ایرانی ریپر توماج صالحی کی گرفتاری کی ایک ویڈیو شائع کی، جس میں انہیں آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ انہیں مظاہروں کی حمایت میں کئی ریپ کلپس جاری کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ ویڈیو میں انہیں کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ انکا وہ مطلب نہیں تھا جو انہوں نے حکام پر تنقید کرنے والے تبصروں میں کہا تھا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts