سوچ بچار

”افغان پہلے دن سے امریکہ طالبان مذاکرات کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے“

ترجمہ: عظمت آفریدی

”طالبان‘افغان عوام کے نمائندے نہیں ہیں“ مگر ”تمام افغان یہ سمجھتے ہیں کہ امن‘تشدد کو بڑھاوا دینے، بم برسانے اور فوجی کاروائیوں کے ذریعے قائم نہیں کیاجاسکتا“۔ یہ بات ڈاکٹر اورزلہ نعمت نے این پی آر کے سکاٹ سائمن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

اورزلہ نعمت افغان صدر اشرف غنی کی مشیر رہ چکی ہیں۔ وہ لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (سواس) سے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر نے کے بعد افغان ریسرچ اینڈ ایویلوایشن یونٹ (Afghan Research and Evaluation Unit) کی سربراہ کے طور پر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) امریکی ریڈیو اسٹیشن ہے جوماہانہ اپنے 105 ملین سامعین تک دنیا کے مختلف حصوں کی خبریں اور کہانیاں پہنچاتاہے۔ ذیل میں این پی آر کے سکاٹ سائمن کے ساتھ ہونے والی اورزلہ نعمت کی گفتگو کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

سکاٹ سائمن: صدرٹرمپ نے افغان امن مذاکراتی عمل ختم کردیا۔ افغان حکومت اس عمل کا حصہ نہیں تھی۔ آپ کے خیال میں یہ مذ اکرات کتنے سنجیدہ تھے؟

اورزلہ نعمت: چاہے مذاکرات سنجیدہ تھے یانہیں لیکن ان کابراہِ راست اثران تین کروڑ افغانوں کے مستقبل پر پڑنا تھاجوافغانستان میں رہ رہے ہیں۔ عام افغان کے نقطہ نظر سے یہ بہت مایوس کن تھا کہ امریکہ اور طالبان، طالبان جو ایک ایسا گروہ ہے جو دہشت گردی کو اپنے سیاسی اور نظریاتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہتھیارکے طور پر استعمال کرتا ہے، کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغان خود موجود نہیں تھے۔ اسی وجہ سے پہلے ہی دن سے افغان باشندے اس عمل پر شکوک وشبہات کا اظہار کر رہے تھے اور ان پرتنقید کر تے تھے۔ جوکچھ دیکھائی دے رہا تھا وہ یہی تھا کہ امریکہ‘ افغانستان اور اس کا مستقبل طالبان کے ہاتھوں میں دینے جارہاتھا جوکہ اس ملک کے عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔

سائمن: مجھے یادہے جب میں نے طالبان کے دور میں بہت ساری خواتین سے بات کی تھی جو بہت خوف میں زندگی گزار رہی تھیں۔ آپ کے خیال میں کیا طالبان دوبارہ ا ٓسکتے ہیں؟

اورزلہ نعمت:طالبان کے دور میں اگرچہ خواتین خوف میں زندگی گزار رہیں تھیں لیکن تاریخ کے اس تاریک ترین اورجابرانہ دور میں بھی وہ اپنے طور مزاحمت کرتی تھیں۔ میں نے خود نوے کی دہائی میں خواتین کو تعلیم دلانے کے لئے گھر کے اندر کلاسز کا اہتمام کیا۔ ہم افغان عورتیں اس وقت میں بھی جب طالبان اقتدار میں تھے جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی اور احتجاج کرتی تھیں لہٰذا طالبان کا دوبارہ ظہور ایک مختلف تناظر میں دیکھناہوگا جوکہ گورننس کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ہمارے سامنے بنیادی مسئلہ دیرپاامن قائم کرنے کا ہے۔ تمام افغان یہ سمجھتے ہیں کہ امن‘تشدد کو بڑھاوا دینے، بم برسانے اور فوجی کاروائیوں کے ذریعے قائم نہیں کیاجاسکتا۔

سائمن:افغانستان میں اس وقت ایسے سپاہی بھی لڑرہے ہیں جو گیارہ ستمبر کے وقت ابھی بچے تھے۔ ان امریکیوں کو آپ کیاکہناچاہیں گی جو کہتے ہیں کہ ہم نے افغانستان سے نکلنا ہے، جو بھی ہوہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہم جو کچھ کرسکتے تھے وہ کیا۔ اب ہم نے اپنے سپاہیوں کو اپنے وطن لانا ہے۔ افغانستان ہمارا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہماری ذمہ داری ہے؟

اورزلہ نعمت:مجھے ذاتی طور پر ان تمام سپاہیوں سے ہمدردی ہے جو اپنے وطن کے دفاع کے لئے لڑتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ افغانستان میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیاتھا۔ تاہم وہ افغانستان کو بچانے بھی نہیں آیاتھا۔ امریکہ کے واضح تذویراتی مقاصد تھے۔ اگر اُس وقت آپ مجھ سے پوچھتے توبھی میں فوجی مداخلت کی مخالفت کرتی۔ ایک عام افغان کی حیثیت سے، جوطالبان کے مظا لم سہہ رہا ہو، میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے یہی مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ تعلیم و ترقی کی مد میں مددکرتے لیکن جب انہوں نے فوجی مداخلت کی تو اس سے بہت سارے اور مسائل پیدا ہوئے۔ ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ ہمارا امریکہ پر انحصار بہت بڑھ گیا۔ میری یہی خواہش ہے کہ وہ تمام امریکی جو گیارہ ستمبر کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور جو اس وقت افغانستان میں لڑرہیں ہے کہ وہ اپنے ملک چلیں جائیں۔

سائمن: این پی آر سے بات کرنے کے لئے شکریہ!

اورزلہ نعمت: شکریہ!

Roznama Jeddojehad
+ posts