عمران کامیانہ
رواں مہینے پے درپے تین امریکی بینکوں کے دیوالیے نے ان تضادات کو ایک بار پھر عیاں کر دیا ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی کوکھ میں سلگ رہے ہیں۔ اسی دوران سوئٹزرلینڈ کا 167 سال پرانا بین الاقوامی بینک ’کریڈٹ سوئس‘ بھی دیوالیے کی کیفیت سے دوچار ہوا ہے جس کے بعد اسے ریاستی ایما پر ایک اور ملٹی نیشنل بینک’یو بی ایس‘ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں سوئس بینک تاریخی طور پر ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ دیوالیوں کا یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں پھیل بھی سکتا ہے۔ ان حالات میں عالمی سرمایہ داری ایک نئے معاشی بحران کے دہانے پہ کھڑی نظر آ تی ہے۔
امریکہ سمیت دنیا بھر میں مرکزی بینکوں کی جانب سے افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود میں مسلسل اضافے کے بعد سستے قرضوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں معیشت کی جو پوری طرز 2008ء کے بعد سستے سرمائے پر استوار ہوئی تھی اب ٹوٹ کے بکھر رہی ہے۔ چنانچہ اس دوران سستے قرضوں سے مالیاتی سٹے بازی کے جو بلبلے مختلف شکلوں میں بنے تھے وہ پھٹ رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وبا کے نتیجے میں جنم لینے والے بے نظیر معاشی سکڑاؤ کے بعد سرمایہ داری کی بڑے پیمانے پر بحالی کے امکانات مخدوش ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر تھوڑے لمبے عرصے میں دیکھیں تو عالمی معیشت 2008ء کے بحران سے بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائی تھی۔ کورونا سے وابستہ معاشی بحران پچھلی تقریباً ایک دہائی کی نحیف اور بے ثمر قسم کی بحالی کے دوران وقوع پذیر ہوا۔ وبا درحقیقت پہلے سے موجود بحران کو ہی نئی انتہاؤں پر لے گئی جہاں معیشتیں سکڑنے لگیں اور قرضے تاریخی بلندیوں کو چھونے لگے۔ لیکن وبا سے پہلے بھی سامراجی تجزیہ نگار ایک بحران کی پیش گوئی بہرحال کر رہے تھے۔ اس سارے عرصے میں عالمی معیشت ایک گھن چکر میں پھنسی رہی جس میں شرح منافع کی گراوٹ پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کے زوال پہ منتج ہوتی رہی۔ ایسے حالات میں جب ”حقیقی معیشت“ یا پیداواری شعبے میں مطلوبہ شرح منافع حاصل نہ ہو پا رہی ہو‘ سرمایہ دار عام طور پر مالیاتی شعبے، سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ وغیرہ میں سٹے بازی کو فوقیت دیتے ہیں جہاں نسبتاً کم وقت میں بڑے منافعے کمائے جا سکتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں سٹے بازی کے ان شعبوں میں کرپٹو کرنسیوں کے دھندے کا بھی اضافہ ہو چکا ہے جو قابل بھروسہ، مستحکم اور سنجیدہ نوعیت کی کرنسیوں سے بالکل ہٹ کر سراسر جوا اور فراڈ ہیں اور بڑے پیمانے پر وسائل کے ضیاع کے مترادف ہیں۔ بہرحال شرح منافع کی گراوٹ کے ساتھ پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی کے مذکورہ بالا گھن چکر کے ذریعے ہی دنیا بھر (بالخصوص مغرب) کی سرمایہ دارانہ معیشتوں میں مسلسل پھیلتے ہوئے مالیاتی شعبے کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ لیکن ان مالیاتی بلبلوں کو آخر کار پھٹنا ہوتا ہے جس سے پھر ہر کچھ دہائیوں کے بعد بحرانات جنم لیتے ہیں۔ بحران کی ظاہریت یا فوری وجوہات سے قطع نظر 1929ء، 1973ء اور پھر 2008ء میں یہی ہوا تھا۔ بحران کا فوری اظہار بالعموم مالیاتی شعبے میں ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں حقیقی پیداواری شعبے میں ہی پیوست ہوتی ہیں۔ لمبے عرصے میں سرمایہ داری کا بحران شرح منافع میں اس بتدریج گراوٹ کا شاخسانہ ہی رہا ہے جس کی وضاحت مارکس نے کی تھی۔
کورونا وبا کے تھم جانے کے بعد جب کاروبار زندگی بحال ہوا تو دنیا بھر میں معیشتوں کے گروتھ ریٹ یا شرح نمو تیزی سے اوپر کی طرف گئی۔ لیکن یہ گروتھ وقتی تھی جس کی وجہ وبا کے دوران ریاستوں کی طرف سے دئیے جانے والے بڑے پیمانے کے محرکاتی پیکیج (Stimulus Packages) تھے جن کے ذریعے معیشتوں کو یکسر دھڑام ہونے سے بچایا گیا تھا۔ یہ ایک طرح سے ”شوگر رش“ کا مظہر تھا جس میں انسان اگر زیادہ چینی کھا لے تو وقتی طور پر جسم میں چستی و توانائی آ جاتی ہے لیکن یہ مظہر مستقل نہیں ہوتا بلکہ چینی کا اثر زائل ہو جانے کے بعد سستی و بے دلی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کورونا کے بعد معیشتوں کی بلند شرح نمو کی دوسری وجہ ’لو بیس ایفیکٹ‘ بھی تھا جس میں بڑی گراوٹ کے بعد مجموعی طور پر معمولی بہتری بھی فیصدی طور پر زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ تاہم عالمی معیشت وقتی تیزی کے بعد اب ایک بار واضح طور پہ سست روی کے اسی معمول کی طرف چلی گئی ہے جو 2008ء کے بعد سے اس کا خاصہ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2022ء کی 3.2فیصد شرح نمو کے مقابلے میں 2023ء میں عالمی معیشت کی شرح نمو صرف 2.7 فیصد رہے گی جو اگرچہ ’ریسیشن‘ کے زمرے میں نہیں آتی لیکن ”ویسے ہی اثرات کی حامل ہو گی۔“ ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ گراوٹ زیادہ واضح ہے جو پچھلے سال کی 2.7 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں اس سال صرف 1.2 فیصد کی شرح سے نمو پائیں گی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اندازے اس سے بھی کم کے ہیں جن کے مطابق رواں سال عالمی معیشت صرف 2.3 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی۔ یہ اتنی کم شرح نمو ہے کہ عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف لڑھک سکتی ہے۔ دس میں سے نو ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کی شرح نمو گراوٹ کا شکار ہو گی۔ مزید برآں آئی ایم ایف کے مطابق عالمی معیشت کی شرح نمو کا نصف انڈیا اور چین کی معیشتوں پر مبنی ہو گا جبکہ امریکہ اور یورپ مل کر بھی اس میں صرف 10 فیصد حصہ ڈال پائیں گے۔
یہاں ترقی یافتہ مغربی سرمایہ داری کی لمبے عرصے میں گروتھ کے امکانات مختصراً جائزہ لینا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ آج مغربی سرمایہ داری کے بیشتر ماہرین خود ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں‘ مغربی معیشتوں کے لئے بلند شرح نمو کے دن قصہ ماضی ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق معیارِ زندگی میں اضافے اور معاشی نمو کے نقطہ نظر سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت وغیرہ جیسی ایجادات یا حاصلات ریلوے، بجلی، ٹیلی فون، انجن وغیرہ سے بڑی نہیں ہیں اور مسلسل بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری، تعلیم کے معیار میں گراوٹ، آبادی میں بوڑھوں کی تناسب میں اضافے اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے پیداواریت میں مطلوبہ شرح سے اضافہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ مزید برآں مائیکرو پراسیسر (کمپیوٹر) اور انٹرنیٹ سے جڑی گروتھ کو ماضی میں تلاش کیا جانا چاہئے‘ نہ کہ مستقبل میں۔ لہٰذا مغربی سرمایہ داری کے لئے بڑے پیمانے کی گروتھ کے امکانات مخدوش ہیں۔ واضح رہے کہ قنوطینت پر مبنی یہ تناظر کوئی انقلابی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے اپنے تجزیہ نگار دے رہے ہیں۔
بہرحال یہ واضح ہے کہ آج عالمی معیشت میں چین ایک فیصلہ کن کردار کا حامل ہو چکا ہے۔ ایسے میں چینی معیشت اور ریاست کی ترکیب اور کردار کا جائزہ لینا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ جس کے لئے حس تناسب کو ہمیشہ برقرار رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ایک طرف چینی معیشت کو روایتی سرمایہ دارانہ یا منڈی کی معیشت کے طور پر دیکھنا فاش غلطی اور نظریاتی بچگانہ پن ہے جس کا شکار بدقسمتی سے آج مارکسی تحریک کے بیشتر حلقے ہیں۔ دوسری طرف چینی سماج میں پنپنے والے تمام تر تضادات کو نظر انداز کر کے اس کی مصنوعی طور پر خوش کن تصویر کشی کرنا، مبالغہ آرائی سے کام لینا یا چینی افسر شاہی کی تعریفوں کے پل باندھنا ایک دوسری انتہا ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر عالمی معیشت میں امریکہ اور چین کے نسبتی وزن کو مدنظر رکھ کے سیاسی معاشیات کے اہم نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ معاشی بحرانات کے عرصوں سے ہٹ کر امریکی معیشت مسلسل نمو پاتی رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کی بحث سے اشارہ ملتا ہے کہ 1950ء کے بعد سے اس کا پھیلاؤ باقی دنیا کی نسبت سست روی کا شکار رہا ہے۔ جس کی وجہ سے نسبتی یا اضافی حوالے سے یہ ایک گراوٹ سے دوچار ہوئی ہے۔ مثلاً 1960ء سے 2020ء تک امریکہ کے جی ڈی پی میں 5.5 گنا اضافہ ہوا۔یہ بظاہر ایک معقول ترقی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اسی دوران باقی دنیا کے جی ڈی پی میں 8.5 گنا اضافہ ہوا۔ یعنی عالمی معیشت میں امریکہ کا نسبتی حجم یا وزن کم ہونے کی طرف گیا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اسی عرصے کے دوران چین کے جی ڈی پی میں 92 گنا اضافہ ہوا! اسی مظہر کو ایک اور طرح سے دیکھا جائے تو 1960ء میں چینی معیشت کو 22 بار جمع کیا جائے تو ایک امریکہ کی معیشت بنتی تھی۔ تاہم آج چینی معیشت کاحجم کم و بیش امریکہ کے مساوی ہو چکا ہے۔ بلکہ جی ڈی پی کو ناپنے کے کچھ پیمانوں کے مطابق چین آج امریکہ سے بڑی معیشت ہے۔ چنانچہ عالمی معیشت میں امریکی معیشت کا حصہ، جو 1960ء میں 46 فیصد تھا، آج 30 فیصد رہ چکا ہے۔ یہ بنیادی طور پر امریکی سامراج کی وہ تاریخی زوال پذیری ہے جو ہر طرح کے عسکری، سیاسی، سفارتی اور معاشی مضمرات کی حامل ہے جن کا مشاہدہ ہم آج کی دنیا میں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مختلف علاقائی یا نیم عالمی طاقتوں کا سر اٹھانا اور امریکی سامراج کے پالیسی سازوں کی بے چینی و بوکھلاہٹ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ لیکن یہاں ایک بار پھر حس تناسب کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اپنی تمام تر کمزوری و زوال پذیری کے باوجود امریکہ آج بھی نہ صرف عسکری بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی، معیارِ زندگی اور فی کس آمدن و کھپت کے حوالوں سے ایک عالمی سامراج ہے۔ مثلاً امریکہ کے 70 ہزار ڈالر فی کس جی ڈی پی (ایک طرح کی اوسط فی کس آمدن) کے مقابلے میں کئی دہائیوں تک مسلسل تقریباً 10 فیصد سالانہ کی شرح نمو کے باوجود چین کا فی کس جی ڈی پی آج بھی صرف 12 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی جنم لیتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی موجودہ سطح کے ساتھ کیا دنیا میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ چین کی ڈیڑھ ارب آبادی امریکہ کے اوسط معیار زندگی یا فی کس کھپت تک پہنچ سکے؟
عالمی معیشت کی صورتحال کی طرف واپس آئیں تو 2008ء کے بعد کے سالوں اور اب کورونا کے بعد کی معاشی کیفیت میں یہ فرق ہے کہ آج کم شرح نمو کے ساتھ بلند افراطِ زر نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں مہنگائی ایک سلگتا ہوا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ افراطِ زر کو کورونا وبا نے تحریک اور یوکرائن جنگ نے شدت ضرور دی ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ پھر عالمی سرمایہ داری کے پیداواری شعبوں کی کمزوری ہے۔ اب اسے قابو کرنے کے لئے دنیا بھر کے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں تاکہ مبینہ طور پر ”گرم“ ہو چکی معیشتوں کو ٹھنڈا کیا جا سکے لیکن اس سے شرح نمو مزید گراوٹ کا شکار ہو گی جس سے عام لوگوں کی آمدنیاں اور روزگار مزید سکڑنے کی طرف جائیں گے۔ تاہم افراط زر سے جلدی جان چھوٹنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس سال افراط زر میں کچھ کمی تو آئے گی لیکن اگلے سال بھی 80 فیصد ممالک میں افراطِ زر کورونا سے پہلے کی نسبت زیادہ ہی ہو گا۔ امریکی فیڈرل ریزرو (مرکزی بینک) شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے جس سے ڈالر کی قدر بڑ ھ رہی ہے اور باقی کرنسیاں بے قدری کا شکار (Depreciate) ہو رہی ہیں۔ اس سے بالخصوص درآمدات پر منحصر پسماندہ ممالک میں مہنگائی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ مثلاً پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 45 فیصد تک پہنچ چکی ہے جسے قابو کرنے کے لئے مرکزی بینک بنیادی شرح سود کو 20 فیصد تک لے گیا ہے۔ امریکہ میں بنیادی شرح سود، جوپچھلے سال تقریباً صفر فیصد تھی، اب 5 فیصد کے قریب منڈلا رہی ہے۔ ابھی اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ شرح سود میں اضافے کے کئی مضمرات ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے کمزور کاروبار یا نام نہاد ”زومبی“ کمپنیاں، جو پہلے ہی قرض لے کر قرض چکار ہی ہیں، دیوالیہ ہو جائیں گی، سرمایہ کاری میں کمی آئی گی، طلب گر جائے گی، مالیاتی سٹے بازی کے بلبلے پھٹنے لگیں گے۔ یہ سب مجموعی طور پر معاشی سکڑاؤ یا کم از کم معاشی نمو میں بڑی گراوٹ کے بحران کی شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔ یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے کہ ان تمام مضمرات کو نظر انداز کر کے بھی کیا شرح سود میں اضافے سے افراطِ زر کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ معیشت کے ”اوور ہیٹ“ ہونے اور طلب میں اضافے کے نتیجے میں جنم لینے والا کلاسیکی ’کینیشین‘ افراطِ زر ہے؟ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے شرح سود میں اضافے سے موجودہ افراط زر کے مسئلے کو جزوی طور پر ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے (وہ بھی مذکورہ مضمرات کی بھاری قیمت پر)۔ لیکن اگر یہ شرح سود نہیں بڑھاتے تو افراطِ زر معاشی، سیاسی و سماجی طور پر مسلسل عدم استحکام کا موجب بنا رہے گا، کمزور کاروبار مزید مقروض ہو کر گھسٹتے رہیں گے اور مالیاتی بلبلے پنپتے رہیں گے۔ یہ بھی یقینا کوئی خوشگوار تناظر نہیں ہے۔
عالمی معیشت پہلے ہی سٹیگفلیشن (بیک وقت کم شرح نمو/معاشی سکڑاؤ اور بلند افراطِ زر) کی کیفیت سے دوچار ہے جو آنے والے دنوں میں شدید ہو سکتی ہے۔ یہ مظہر، جو سب سے پہلے 1970ء کی دہائی میں سامنے آیا تھا، آج پہلے سے بدتر ہو سکتا ہے جس کی وجہ پھر قرضوں کا بے نظیرحجم ہے۔ 1970ء میں مجموعی عالمی قرضہ (نجی، کاروباری، حکومتی) جی ڈی پی کا 100 فیصد تھا جو تقریباً پچاس سا ل میں ڈھائی گنا ہو کر آج 250 فیصد کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ بعض ذرائع کے مطابق قرضے کا حقیقی حجم 300 ہزار اراب ڈالر ہے جو عالمی جی ڈی پی کا 350 فیصد تک بنتا ہے۔ اس میں سے 35 فیصد قرضہ ’فلوٹنگ‘ ہے جو شرح سود میں اضافے سے فوراً مہنگا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو کچھ سری لنکا میں ہوا ہے وہ آنے والے دنوں میں پاکستان سمیت کئی دوسرے ممالک میں بھی ہو سکتا ہے۔
ان حالات میں دیوہیکل قرضوں، بلند شرح سود اور کم شرح نمو کا امتزاج آنے والے عرصے میں عالمی سرمایہ داری کو 2008ء سے کہیں گہرے بحران میں دھکیل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یوکرائن جنگ تھم بھی جاتی ہے تو امکانات کم ہی ہیں کہ سرمایہ داری موجودہ کیفیت سے نکل پائے۔ لیکن اس سب کا محنت کش طبقے کے لئے کیا مطلب ہے؟ افراطِ زر کا مطلب حقیقی اجرتوں اور آمدن میں کمی ہے جس کا ناگزیر نتیجہ معیارِ زندگی میں گراوٹ ہے۔ اتنے قرضوں کے ساتھ شرح سود میں اضافے کا مطلب ایک طرف کمزور ریاستی معیشتوں اور کاروباروں کا دیوالیہ ہے جبکہ دوسری طرف بے رحم کٹوتیاں (آسٹیریٹی)، چھانٹیاں اور نجکاری ہے۔ جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا، سبسڈیاں اور ویلفیئر اخراجات کم یا ختم کیے جائیں گے اور تعلیم و علاج سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی محرومی بڑھے گی۔ بحران کا سارا بوجھ آخر کار محنت کش عوام پر ہی ڈالا جائے گا جس سے طبقاتی جدوجہد کے نئے دھماکے ناگزیر ہیں۔ جن کی جھلکیاں ہم برطانیہ اور فرانس سمیت کئی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔
لیکن مسئلہ صرف معاشی بحران کا ہی نہیں ہے۔ انسانیت آج جس کیفیت کی شکار ہے اسے ”کثیرالجہتی بحران“ (Polycrisis) کا نام دیا جا رہا ہے جس میں کئی طرح کے بحرانات اکٹھے ہو کر امڈ آئے ہیں۔ لیکن جن کا بنیادی ماخذ پھر یہی نظامِ سرمایہ ہے۔ ایک طرف مہنگائی، کساد بازاری و بیروزگاری ہے۔ دوسری طرف گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور وباؤں کا بحران ہے۔ پھر شدید ہوتی ہوئی بین السامراجی کشمکش ہے جس کا صرف ایک نتیجہ یوکرائن جنگ ہے لیکن جو دوسری جنگوں، پراکسی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی شکل میں اس سے کہیں زیادہ بھیانک مضمرات کو جنم دے چکی ہے اور مزید دے سکتی ہے۔ ان شدت پکڑتے سامراجی تضادات کی انتہا ایک عالمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جس کے امکانات جتنے کم ہیں اتنے ہی خوفناک ہیں۔ ان سارے بحرانات سے جڑا ہجرت کا بحران ہے جس میں نوجوان سمندروں میں غرق ہو رہے ہیں، مغربی سماجوں میں نسل پرست اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور ہر طرح کے مضر ثقافتی اثرات دنیا بھر کے سماجوں پہ مرتب ہو رہے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کا عفریت، دہشت گردی کی غارت گری اور نسلی و لسانی تصادموں کے بحرانات بھی آخری تجزئیے میں اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ ایسے میں یہ حیران کن نہیں ہے کہ خود سرمایہ داری کے پالیسی ساز کسی رجائیت سے سرشار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی حالیہ سالانہ رپورٹ، جس کا عنوان ہی ”غیر یقینی زمانے، غیر مستحکم زندگیاں“ ہے، کے مطابق انسانیت آج ماضی کے کسی دور سے کہیں زیادہ قنوطیت (Pessimism) کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں میں ایسے الفاظ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور منفی جذبات سے وابستہ ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران انسانی زبان میں دنیا اور اس کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کے تاثرات غالب آئے ہیں۔ حتیٰ کہ 1929ء کے گریٹ ڈپریشن اور دونوں عالمی جنگوں کے عرصے میں بھی ایسی یاس اور ناامیدی نہیں دیکھی گئی تھی۔ یہ پژمردگی، افسردگی و مایوسی بنیادی طور پر ایک ایسے سماجی نظام پر عدم اعتماد کا اجتماعی اظہار ہے جو اپنی مدت پوری کر چکا ہے لیکن اپنے ساتھ پوری انسانیت کو پاتال میں لے جانے کے درپے ہے۔ تقریباً سو سال قبل کہے گئے لیون ٹراٹسکی کے ان الفاظ کو پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے تناظر میں لکھے گئے ہوں: ”انسانیت ہمیشہ ایک سیدھی اور مسلسل لکیر میں اوپر نہیں ابھری ہے۔ بالکل نہیں۔ بلکہ جمود کے ادوار بھی گزرے ہیں اور سماج واپس بربریت میں بھی غرق ہوئے ہیں۔ سماج ابھرے، ایک خاص سطح تک بلند ہوئے لیکن ان بلندیوں پہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔ انسانیت ایک ہی جگہ پہ ٹھہری نہیں رہتی ہے۔ طبقاتی و قومی جدوجہدوں کے پیش نظر اس کا توازن غیر مستحکم ہوتا ہے۔ جو سماج آگے نہ بڑھ سکے وہ پیچھے سرکنے لگتا ہے۔ اور اگر اسے آگے بڑھانے والا کوئی طبقہ موجود نہ ہو تو یہ ٹوٹ کے بکھرنے لگتا ہے اور بربریت کے راستے کھل جاتے ہیں۔“
آج اس نظام کے تحت انسانی سماج ایسی ہی اجتماعی بربادی و بربریت کے خطرات سے دوچار ہے۔لیکن اس دنیا میں تاریخ کے سب سے بڑے اور دیوہیکل محنت کش طبقے کی موجودگی یہ امکان بھی کھولتی ہے کہ انسانیت خود تباہ ہونے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ و برباد کر کے نجات کی منزل کی جانب آگے بڑھ جائے۔