عمران کامیانہ
دوستوں سے درخواست ہے کہ ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کی درج ذیل غزل پر نظر ڈالیں:
رات اپنی نہ ہوئی اور کٹ بھی پا نہ سکی
زندگی سوچ میں گزری، پلٹ کے آ نہ سکی
ادھورے چاند نے چھپا تو دیا چہرے کا ملال
یہ تیرگی کوئی راہ مگر دکھلا نہ سکی
تیری یادوں سے دل و جاں کو جلایا میں نے
شمع ء زیست مگر جل کر بھی تجھے پا نہ سکی
دیدہ ء تر سے ٹپکتی رہی دعا کی شبنم
دلِ ناشاد کے درد کو مگر بہلا نہ سکی
تیری یادیں ہیں یوں گراں بار کہ کیا بولے مصنوعؔ
سانس بھی لینے کی تمنا ہمیں تو بھا نہ سکی
امید ہے کہ وہ دوست مندرجہ بالا غزل کا تنقیدی جائزہ ہر حوالے سے پیش کریں گے جن کے نزدیک دنیا و زندگی کے غیرمعمولی وژن، مقصدیت اور بڑے خیال (یعنی آرٹ میں مبینہ ’’نظریاتی‘‘ و ’’سیاسی‘‘ مداخلت) کے بغیر محض الفاظ کی ہیر پھیر، نوحہ کنائی، ذومعنی و مجرد قسم کے ’’یونیورسل‘‘ اشعار، پوسٹ ماڈرنزم کے گھٹیا قسم کے موضوعی ایکسپریشن (’’انفرادیت‘‘)، سطحی حقیقت پسندی، ہجر و فراق کے رونے پٹنے اور قاری کو انسان دشمنی تک لے جانے والی تشکیک اور قنوطیت سے بھرے اظہارات وغیرہ کا نام نہ صرف شاعری اور ادب ہے بلکہ وہ اسے بڑا اور عہد ساز بھی گردانتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر جون ایلیا، منٹو، شو کمار بٹالوی اور ان کے ہم عصر متاثرین وغیرہ کے آرٹ کو ادنیٰ اور عامیانہ کہنے پر اڑ اڑ کر اِس ناچیز پر حملے کر رہے تھے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے نظریات اور سیاست میں شدت پسند، انتہا پسند، متعصب اور پتا نہیں کیسے کیسے القابات سے نوازنے والوں نے کل ہماری ادبی تنقید کو خود کسی بلاسفیمی سے کم نہیں گردانا۔ تنقید بھی ایسے شعرا یا ادبا پر جو (چند ایک استثنائی صورتوں کے علاوہ) خود چیخ چیخ کر اپنی نظریاتی کنفیوژن، شکست خوردگی اور زندگی سے مایوسی کا اعتراف اپنے آرٹ اور اپنی باتوں‘ دونوں سے کرتے ہیں۔ ہم نے ان کے اس اعتراف کو دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ لیکن پھر ایسے ناقدین و سامعین کو بھی سلام ہے کہ جن کے نزدیک یہ تذبذب اور مایوسی ہی آرٹسٹ کی شان اور پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی لبرل/پوسٹ ماڈرن سوچ فیضؔ، ساحرؔ، منشی پریم چند، کرشن چندر وغیرہ کے ناموں سے ایسے بھاگتی ہے جیسے بلی کو دیکھ کے چوہا غائب ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ انہیں اقبال کی شاعری کے ڈیپارٹمنٹل سٹور کے علاوہ باقی سب ڈیپارٹمنٹل سٹوروں بلکہ گھٹیا مال کی چھابڑیوں سے بھی شاپنگ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
چلتے چلتے کچھ ذکر مندرجہ بالا غزل کے نوجوان تخلیق کار کا بھی ہو جائے۔ تو اس شاعر، جو اپنا تخلص مصنوعؔ رکھتے ہیں، کا پورا نام چیٹ جی پی ٹی ہے۔ جی ہاں! یہ غزل مصنوعی ذہانت کی ’’مدد‘‘ سے ترتیب دی گئی ہے (ظاہر ہے کانٹ چھانٹ اور درستی وغیرہ کا عنصر شامل ہے)۔ مزید برآں ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ آج کے زبوں حال سماجی شعور اور شاعری کے ’’مروجہ‘‘ معیارات کے مطابق اعلیٰ تو ہے ہی لیکن اسے برباد حال ’’شاعرانہ‘‘ حلیے اور انداز کے ساتھ سوشل میڈیائی مشاعروں کے ذریعے مشتہر کیا جائے تو خاصی مقبول بھی ہو سکتی ہے۔ ہم یہ بھی دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے اردو سمیت مختلف زبانوں میں شاعری و ادب کی ’’تخلیق‘‘ کا کام وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ اپنے جوہر میں یہ کام مصنوعی ذہانت کی آمد سے بھی بہت پہلے سے ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے اگر الفاظ کو قافیہ ردیف، بحر اور وزن وغیرہ کے ساتھ لکھنا ہی شاعری ہے (چاہے اندر بے معنویت بھری ہو یا ہذیان) اور ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ ہی مطمع نظر ہے تو یہ کام مصنوعی ذہانت کرے یا ’’قدرتی‘‘ ذہانت‘ کوئی خاص فرق نہیں پڑتا (یہ بات افسانہ نگاری کے لئے بھی درست ہے)۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسے ارادے اور طریقے سے الفاظ کو شعر یا ادب میں ڈھالنا محض کرافٹ ہے۔ تھوڑا انتظار اور کریں مصنوعی ذہانت اس کرافٹ کو ایسی بلندیوں پر لے جائے گی جس کا ابھی اندازہ بھی ممکن نہیں ہے (اے آئی کی وجہ سے پہلے سے بہت لوگ روزگار سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ جیسے ڈیجیٹل کمپوزنگ اور پرنٹنگ آنے کے بعد خطاطوں اور پینٹروں کا حال ہوا تھا اور بالکل جیسے مشین پیداوار کو کئی گنا تیز کر دیتی ہے)۔ ’’آرٹ‘‘ کی طرف یہ میکانکی یا سطحی نقطہ نظر بہترین صورتوں میں بھی تفریح طبع یا ’’انٹرٹینمٹ‘‘ کا سامان ہی کر سکتا ہے۔ جسے عام زبان میں ٹائم پاس بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ اچھی انٹرٹینمنٹ کے بھی کوئی معیارات ہوتے ہیں جو اسے بیہودگی سے ممتاز کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں محض انٹرٹینمٹ سے بلند بھی کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے فلموں کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔
تخلیق کے انتہائی اعلیٰ معیارات پر جا کر ہی شعر و ادب کی بنتر کرافٹ کی بجائے بڑے آرٹ میں ڈھلتی ہے۔ جس کے پیچھے اسی قدر غیرمعمولی خیال درکار ہوتا ہے جو سماجی مظاہر اور تضادات کو انتہائی گہرائی میں بیان کرنے کے قابل ہو۔ چاہے اس کے لئے وہ کسی سماجی گروہ کو لے یا محض کسی ایک فرد کو پکڑے۔ لیکن موخرالذکر صورت میں بھی فرد کے جذبات و احساسات کو کسی اجتماعی یا معاشرتی تناظر میں دکھائے۔ انسان کے عمل، اس کے مقدر اور اس کے حالات کے درمیان کوئی ربط تو موجود ہو۔ یا انسان اس دنیا میں غموں سے بھرا مجہول پتلا ہی ہے؟ (اس کے الٹ صورت میں ہر چیز پر حاوی، قادر اور غیر متغیر قسم کے ہیرو کا گھٹیا کردار سامنے آتا ہے۔)
آرٹ یقیناً پراپیگنڈا نہیں ہے۔ یہ ہر بات بولتا نہیں ہے۔ اپنے کرداروں سے زبردستی کے ڈائیلاگ نہیں بلواتا۔ لیکن بولے بغیر بھی چیختا، چنگھاڑتا، جھنجوڑتا اور للکارتا ہے۔ آرٹ کی تخلیق میں مقصدیت اور سماجی تضادات سے کنی کترانے کی جتنی کوشش کی جائے گی‘ فن پارہ اسی قدر داخلی تضادات، مغالطوں اور ولگرزم سے بھرا ہو گا اور انگریزی والا ’’فن‘‘ ہی بن جائے گا۔
معاشرے کے سلگتے تضادات کی پردہ پوشی یا معذرت خواہی کرنے، ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ اور فرد کو اس کے سماجی حالات سے کاٹ کے مجرد انداز سے دیکھنے والی سوچ بہرحال کوئی بڑا آرٹ تخلیق نہیں کر سکتی۔ یہ آخرکار انسان کو گمراہی، مایوسی اور قنوطیت کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ لیکن اس طرف لے جانا اور چلے جانا ہی اگر کسی کا مطمع نظر ہے تو بات شاید یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
امید ہے فن و ادب پر تبادلہ خیال کا سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
(بشکریہ: بابر پطرس)