پاکستان

انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات: کشتی حادثے کے بعد کیا ہوا؟

حارث قدیر

یونان کے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں ہلاک ہونے والے پاکستانی اور جموں کشمیر کے شہریوں کی اصل تعداد تو ابھی تک بھی معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق 400 لوگ تھے، جن میں سے 12 زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔ 135 کا تعلق جموں کشمیر سے تھا۔ تاہم مقامی میڈیا کے مطابق 310 لوگ تھے، جن میں سے 298 ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کی انتظامیہ کی جانب سے دو تحصیلوں سے اعداد و شمار جمع کر کے 27نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی ہے۔ مقامی میڈیا نے ضلع بھمبر سے جانے والے نوجوانوں کی تعداد کو بھی شامل کر کے مجموعی تعداد44رپورٹ کی ہے، جن میں سے 2زندہ نکالے جا سکے ہیں۔

انسانی سمگلنگ کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کا اقدام بھی کیا گیا ہے۔ اس موقع پر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کوئی رٹہ میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ جس میں کچھ افراد، جو بیرون ملک ہیں، انہیں بھی نامزد کیا گیا ہے اور کچھ مقامی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ متاثرہ گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد آنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ خاندان تفصیلات بتانے سے مکمل گریز کر رہا ہے۔ محض چند ایک افراد نے آدھی ادھوری معلومات فراہم کی ہے۔

تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ ضرور بتایا جا رہا ہے کہ پولیس کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کے ذمہ داران کو تھانوں میں بھی طلب کیا ہے اور ان کے گھروں میں بھی یہ بتا کر پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی معلومات دینے سے گریز کریں۔

گرفتار ہونے والے افراد کے حوالے سے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں بھی اکثریت ایسے افراد کی ہے، جنہوں نے کسی کو معلومات فراہم کی۔ ایسے افراد بھی ہیں جن کا کوئی عزیز اسی طریقہ کار کے تحت یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا اور ان سے حادثے کا شکار ہونے والے نوجوانوں کے رشتہ داروں نے یا ان نوجوانوں نے خود معلومات حاصل کی تھی۔

حادثے کا شکار ہونے والے نوجوانوں کے خاندانوں کو بھی ملزم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ سرکاری سطح پر ایسا بیانیہ بنادیا گیا ہے کہ غیر قانونی اقدام کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یوں حادثے کا شکار ہونے والے بھی غیر قانونی اقدام کر رہے تھے اور ان کو بھیجنے والے، ذریعہ بننے والے، معلومات دینے والے اور اس طریقہ سے جانے کی حمایت کرنے والے سب ہی ملزم ہیں۔

یوں روزگار فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری سے دستبردار ریاست کے نمائندوں نے روزگار کیلئے جان قربان کرنے والوں کے ورثاء کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ریاست اگر اس طرح کے اقدامات نہیں کرتی تو انگلی ریاست کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے۔ احتجاج منظم ہو سکتا ہے اور احتجاج کرنے والے سب سے پہلے یہی سوال کریں گے کہ یہ نوجوان کیوں ایسے زندگی داؤ پر لگانے کیلئے مجبور ہوئے۔ اس لئے ایک منظم انداز میں ریاست نے احتجاج کا راستہ ہی روک دیا ہے۔

تاہم قانونی و غیر قانونی طریقے سے ترک وطن کا یہ سلسلہ رکنے کا امکان اس لئے بھی نہیں ہے کہ وہ وجہ ختم کرنے کی کوشش ہی کوئی نہیں کرے گا، کہ نوجوانوں کو ایسے تلخ فیصلے کرنے پڑیں۔ اطلاعات کے مطابق 8 ہزار سے زائد نوجوان ایسے ہیں جو صرف جموں کشمیر سے یورپ پہنچنے کی کوشش کیلئے لیبیا اور دیگر افریقی ملکوں میں موجود ہیں۔ ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہے اور وہ رہائی کے منتظر ہیں۔ رہائی کے بعد وہ موت کے منہ میں جانے کیلئے بھی تیار ہیں تاکہ اپنے خاندانوں کو بہتر زندگیاں فراہم کرنے کیلئے یورپ کی منڈی میں محنت بیچنے کیلئے رسائی حاصل کر سکیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔