دنیا

غزہ میں جنگ بندی: تفصیلات، خطرات اور امکانات

حارث قدیر

امریکہ اور قطر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے، جس کے تحت تین مراحل میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔

معاہدے کے پہلے مرحلے میں 6ہفتوں کی جنگ بندی ہوگی اور اس دوران حماس اتوار کو 33یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جن میں خواتین، بچے، بزرگ اور زخمی شامل ہیں۔ بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں فلسطینی آزاد کیے جائیں گے اور غزہ کی امداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ تاہم 7اکتوبر کے حملے میں ملوث افراد کو رہا نہیں کیا جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں تنازع کے مکمل خاتمے، غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء اور بقیہ یرغمالیوں کی واپسی کے امور پر مذاکرات ہونگے، جو پہلے مرحلے پر عملدرآمد کے 16روز بعد شروع ہونگے۔

معاہدے کے تحت تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو اور وہاں حکومتی و سکیورٹی انتظامات پر بات ہوگی۔ معاہدے پر عملدرآمد 19جنوری سے شروع کیا جائے گا۔

معاہدے پر عملدرآمد سے قبل اسرائیلی کابینہ نے حتمی منظوری دینی ہے۔تاہم سامنے آنے والے معاہدے کے نکات میں بہت سے ابہامات ہیں، جن کے حوالے سے مستقبل میں صورتحال نمایاں ہوگی،تب ہی معاہدے اور جنگ بندی کا مستقبل بھی واضح ہوگا۔

اسرائیل نے معاہدے کی منظوری حماس کی جانب سے عملدرآمد پر پہل سے مشروط کر رکھی ہے اور حماس پر الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے بعض نکات سے انکار کر کے مزید رعایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم حماس نے ثالثوں کی جانب سے اعلان کیے گئے جنگ بندی معاہدے پر قائم رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

النکبہ الثانی

اگر 1948 النکبہ (تباہی)تھا تو حالیہ جینو سائڈ فلسطین کا النکبہ الثانی ہے۔ غزہ میں اس حالیہ جنگ کا آغاز 15ماہ قبل 7اکتوبر2023کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے عسکری حملے کے بعدہوا تھا۔ اس حملے میں اسرائیل کے 1200کے قریب فوجی و شہری ہلاک اور تقریباً251یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے حملوں کی وجہ سے غزہ شہر کی تمام، تقریباً 23 لاکھ، آبادی گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہے اور غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 46ہزار سے زائد فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری زخمی اور فاقہ کشی کا شکار ہیں۔

امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ معاہدہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ تاہم کوئی بھی یقین سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں اس لیے بھی نہیں ہے کہ معاہدے میں ایسی بہت سی باتیں ہیں، جن کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، نہ ہی ابھی تک معاہدے کا مسودہ پبلک کیا گیا ہے۔

معاہدے کے مطابق غزہ میں بے گھر ہونے والے رہائشیوں کی واپسی کا عمل گہری جانچ پڑتال کے بعد ہوگا۔ اسرائیلی فوجی غزہ کی پٹی سے مرحلہ وار انخلاء کریں گے۔تاہم مصر کے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحد پر فلاڈیلفیا کوریڈور میں اسرائیل کے کچھ فوجی موجود رہیں گے۔ مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو مریضوں اور زخمیوں اور انسانی امداد کے لیے کھولاجائے گا۔غزہ کے مشرقی اور شمالی اطراف میں اسرائیل کی سرحد سے متصل 800میٹر چوڑے بفر زون کو بھی اسرائیل برقرار رکھے گا۔

غزہ کے انتظامی امور کے مستقبل کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے انتظامی امور حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جبکہ حماس کے حق میں بھی نہیں ہے۔ غزہ کے سکیورٹی کنٹرول کے مستقبل کے حوالے سے بھی صورتحال ابھی واضح نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر اسرائیل غزہ میں عبوری انتظامیہ کی تشکیل کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جو فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک انتظامی امور سنبھالے گی۔

اسرائیلی کابینہ کی رضامندی میں بھی کافی رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے حامی سخت گیر اراکین کابینہ اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے اس معاہدے کو قومی سلامتی کے لیے ’قیامت خیز‘قرار دیا ہے۔ اسی طرح قومی سلامتی کے وزیر بھی اس معاہدے کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کو خدشہ ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل مستقل معاہدے سے انکار کر سکتا ہے اور غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے جا سکتے ہیں۔

تاہم بے شمار خطرات اور خدشات کے ساتھ یہ طویل اسرائیلی جارحیت 19جنوری سے جزوقتی روکے جانے اور بے گھر فلسطینیوں کی آبائی علاقے میں واپس آنے کے امکانات ضرور پیدا ہو گئے ہیں۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی جدوجہد کو بہرحال ان 15ماہ میں شدید جھٹکا پہنچا ہے۔

آزادی فلسطین ہی حل ہے

ان صفحات پر پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ حماس اور اس کے اتحادیوں کے پاس 7اکتوبر کے حملے کے علاوہ کوئی معقول راستہ بچا بھی نہیں ہوا تھا۔ تاہم ان 15ماہ نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ آج کے عہد میں،عالمی طاقتوں کے توازن کے پیش نظر عسکریت کے ذریعے سے آزادی کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کروانا تقریباً ناممکن ہو چکاہے۔ 46ہزار جانیں قربان کرنے اور23لاکھ افراد سے چھت چھینے جانے کے باوجود فلسطینیوں کی غلامی کا سفر مزید طویل اور پیچیدہ ہی ہو کر رہ گیا ہے۔

ان 15ماہ میں نہ صرف فلسطینی عوام کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے، حماس اور اس کے اتحادیوں کو بھی بہت نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ حماس کو اپنی اعلیٰ قیادت سے محروم ہونا پڑاہے۔لبنان میں حماس کی اہم اتحادی اور ایران کی پراکسی مسلح تنظیم حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت بھی اس جنگ کا شکار ہوئی ہے۔ حزب اللہ کو بھی شدید نقصان ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر ایران نے اس صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جو اثرورسوخ اور طاقت حاصل کی تھی وہ اب اس سے بھی محروم ہو گیا ہے۔ ایران اور روس کی کمزوری کی وجہ سے شام میں ان کی بیساکھیوں پر قائم بشارالاسد آمریت کا خاتمہ ہو گیا اور اب امریکہ اور اتحادیوں کی مشاورت سے شام میں نظام حکومت قائم کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔

اسی طرح لبنان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے قیام کے بعد حزب اللہ مزید مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ ایسی کیفیت میں اب حماس کے پاس بھی اس جنگ بندی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

تاہم یہ جنگ بندی انتہائی عارضی اور وقتی ہے، اسرائیل کی صیہونی ریاست غزہ اور مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور ان علاقوں پر آبادکاری کے اپنے سامراجی عزائم سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

مطالبات

فلسطین سے یکجہتی کرنے والی قوتوں کے مطالبات مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:

فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی واپسی اور آبادکاری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
اسرائیلی حکومت کے تمام اہم افراد پر جنگی جرائم کے الزام میں مقدمے چلائے جائیں اور انہیں سزائیں دی جائیں۔ اس ظالم حکومت کی سرپرستی کرنے پر جو بائیڈن پر بھی جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔

اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے تمام سامراجی امریکی اور یورپی اتحادیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ تباہ حال غزہ کی بحالی اور تعمیر نو کے تمام اخراجات امداد کی صورت میں ادا کریں۔

اسرائیل کی جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں کو فوری طور پر غیر مشروط رہا کیا جائے۔

فلسطینیوں کو ان کا حق خودارادیت اور حق آزادی دیا جائے، کیونکہ جنگ بندی طویل ضرور ہو سکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی غلامی کا متبادل ہر گز نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی دو ریاستی حل، غزہ اور مغربی کنارے کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے بنائے جانے والے نوآبادیاتی حکومتی سیٹ اپ اس مسئلے کا کوئی دیرپا حل ہو سکتے ہیں۔ بحیرہ روم سے دریائے اردن تک آزاد، خودمختار، سیکولر اور سوشلسٹ فلسطین کے قیام کے علاوہ مسئلہ فلسطین کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔