فاروق سلہریا
معروف مارکسی نظریہ دان اور فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما، ارنسٹ مینڈل، کا ایک مشغلہ تھا جاسوسی ادب پڑھنا۔ ایک بار انہوں نے جاسوسی ادب بارے ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں جاسوسی ادب کا مارکسی جائزہ لیا گیا۔ یہ طویل مضمون ان کی آن لائن آرکائیو میں موجود ہے۔
اپنے مضمون میں انہوں نے ایک دلچسپ نتیجہ یہ اخذ کیا کہ جاسوسی ادب میں ابتدائی طور پر پرائیویٹ طور پر کام کرنے والے جاسوس کیس حل کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ ایک بار جب سرمایہ دارانہ ریاستیں مستحکم طور پر قائم ہو گئیں تو مسٹر ی کیس کو حل کرنے کا کام جاسوسی ادب میں بھی زیادہ تر ریاست یعنی پولیس یا سی آئی ڈی طرح کے اداروں نے سنبھا ل لیا۔
بالی وڈ میں پچھلے چند سالوں سے تھرلر بنانے کا رجحان سامنے آیا ہے۔ ایسی فلمیں بلاک بسٹر تو ثابت نہیں ہوئیں لیکن ان کی ایک مارکیٹ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ایسی فلموں میں عام طور پر جیمز بانڈ جیسا کوئی کردار کوئی معمہ حل کرتا ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’جان جاناں‘ البتہٰ اس رجحان سے ہٹ کر ہے۔
فلم کا مرکزی کردار مایا (کرینا کپور) اپنی بیٹی تارا کے ساتھ نیپال کی سرحد پر ایک انتہائی خوبصورت ہل اسٹیشن میں رہتی ہے۔ طلاق یافتہ مایا اکیلے ہی اپنی جواں سال بیٹی کو پال رہی ہے۔روزی روٹی کے لئے وہ ایک ریستوران چلاتی ہے۔ اس کا شوہر متشدد انسان ہے۔ ایک روز وہ پیسے اینٹھنے کے لئے مایاکے گھر آتا ہے جہاں جھگڑے کے دوران ماں بیٹی اس کا قتل کر دیتے ہیں۔
اس قتل کو چھپانے کے لئے وہ اپنے پڑوسی نارن (جے دیپ) سے مدد مانگتے ہیں۔ جے دیپ مقامی سکول میں ریاضی کا استاد ہے۔ریاضی کا ستاد ہی نہیں بلکہ ایک جینئیس ہے۔ قسمت دیکھئے کہ قتل کا معمہ حل کرنے کے لئے جس پویس انسپکٹر کو بھیجا جاتا ہے،وہ نارن کا پرانا کلاس فیلو کرن (وجے ورما)ہے۔
مایا اور نارن مل کر ایک ایسی کہانی تیار کرتے ہیں کہ پولیس کو ابتدائی طور پر چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔بعد ازاں، کرن کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ نارن دراصل مایا سے محبت کرتا ہے تو وہ نئے سرے سے کچھ کھوج لگاتا ہے۔
پولیس کو چکمہ دینے کے لئے نارن ایک بھکاری کو قتل کر کے اس کی لاش اس طرح جلاتا ہے کہ پولیس بھکاری کو مایا کا سابق شوہر سمجھتی ہے۔آخر میں نارن قتل کی ذمہ داری لے لیتا ہے اور جیل چلا جاتا ہے۔
جاپانی ناول پر بنی اس فلم میں بھی بالی وڈ فلم ’دریشم‘ کی طرح محبت پولیس (جو سرمایہ دار ریاست کی بنیاد ہوتی ہے) کو ناکام بنا دیتی ہے۔ ’دریشم‘میں اجے دیوگن اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے ایک لاش ٹھکانے لگاتا ہے، مقتول پولیس کمشنر (تبو) کا بیٹا ہے،مگر چار جماعت پاس، ایک عام انسان، پولیس کو ناکام بنا دیتا ہے۔
’جاناں‘ میں بھی ایک سکول ٹیچر پوری ریاستی مشینری کو اپنے جینئیس سے، اپنی محبت کے لئے ناکام بنا دیتا ہے(گو فلم کے آخر میں یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ نارن کی جان بچانے کے لئے وہ مایا کی مدد کرتا ہے)۔
فلم کی منظر نگاری، اداکاروں کی اداکاری،ہدایات۔۔۔سب قابل تعریف ہیں۔ ہدایت کار مسلسل تجسس برقرا ر رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ فلم کسی بھی موقع پر ناظرین کو اکتا ہٹ کا شکار نہیں بناتی۔