نقطہ نظر

افغان مہاجرین کا انخلا کمائی کا نیا ذریعہ اور زینو فوبک مہم ہے: صبا گل خٹک

حار ث قدیر

ڈاکٹر صبا گل خٹک کہتی ہیں:افغان پناہ گزینوں کے انخلاء سمیت دیگر مسائل پر عالمی سطح پر آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ پاکستان میں جس طرح بے وقار کر کے انخلاء کیا جا رہا ہے، اس پر پاکستان کے اندر بھی آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ زینوفوبک نفرت انگیز مہم افغان پناہ گزینوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے،جس میں حکومت کا حامی میڈیا اورصحافی بھی پیش پیش ہیں۔ اچانک پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار افغان پناہ گزینوں کو قرار دیکر ان کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے۔ یو این ایچ سی آر، عالمی ادارے اور مغربی طاقتیں بھی افغان پناہ گزینوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہی نہیں بلکہ اس ساری صورتحال سے جان بوجھ کر نظریں چرا رہے ہیں۔

ڈاکٹر صبا گل خٹک نے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ وہ معروف فیمن اسٹ ریسرچر ہیں اور عموما انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ان کے بے شمار تحقیقی مقالے عالمی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کے حوالے سے ’جدوجہد‘ نے انکا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

آپ کے خیال میں افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کے پیچھے ریاست کے کیا مقاصد ہیں؟

صبا گل خٹک: مقاصد کے حوالے سے کوئی واضح معلومات تو نہیں ہیں۔ دو تین مقاصد جو حکومت نے اپنے بیانات کے حوالے سے بتائے ہیں، ان میں سکیورٹی کا مسئلہ ہے، دہشت گردی کا مسئلہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ افغان پناہ گزین اور ٹی ٹی پی اس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ کچھ ٹکراؤ کی کیفیت حکومت پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان آگئی ہے،ورنہ شروع میں تو جب طالبان اقتدار میں آئے تھے، تو ہمارے وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ افغانستان نے غلامی ختم کر دی ہے۔ آج البتہ انہیں طالبان ہی کی حکومت سے کافی گلے شکوے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔
سکیورٹی کے پہلو کے علاوہ پاکستان میں ڈالر کی کمی، گندم، چینی اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ، جرائم سمیت دیگر مسائل کا ذمہ دار طالبان، ٹی ٹی پی اور افغان پناہ گزینوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اس کے پیچھے الیکشن کو ملتوی کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ تھیوری مجھے زیادہ درست نہیں لگ رہی ہے، لیکن یہ کہا ضرور جا رہا ہے۔

کیا اس انخلاء کے ذریعے سے مغرب کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یا طالبان حکومت کو بلیک میل کرنے کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا جا رہا ہے؟

صبا گل خٹک: مغرب کی طرف سے ابھی تک کوئی خاص رد عمل تو نہیں آیا۔ اس لئے اگر یہ مقصد تھا تو اس میں یہ حکمران بالکل ناکام رہے ہیں۔ البتہ مغرب کی منافقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔

میڈیا میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ افغان پناہ گزینوں کو بڑی تعداد میں برطانیہ اور امریکہ منتقل کیا جائے گا۔ جن کے ساتھ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں ساتھ لے کر جائیں گے۔ وہ بھی یہاں دو اڑھائی سال سے بیٹھے ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ ڈپریشن اور بے شمار نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ خودکشیاں بھی ہوئی ہیں اور خود کشی کی کوشش بھی کی ہے۔

اس ساری صورتحال سے مغرب کے حکمران جان بوجھ کر آنکھیں چرا رہے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے بھی متضاد اعداد و شمار دیئے جاتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے ذریعے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی اصل تعداد کیا ہے؟

صبا گل خٹک: حقیقی اعدادو شمار کسی کے پاس بھی نہیں ہیں۔ مہاجرین کی تعداد اندازے ہی ہیں اور انہی کی بنیاد پر امداد بھی لی گئی ہے۔ اب چونکہ یو این ایچ سی آر کے گلوبل بجٹ میں کٹوتی ہو گئی ہے۔ زیادہ بجٹ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کیلئے مختص ہو گئے ہیں۔ یورپ وغیرہ کیلئے 16فیصد بجٹ مختص ہے، مشرق وسطیٰ کیلئے23فیصد ہے، جس میں غزہ کی حالیہ صورتحال کے بعد مزید اضافے کا امکان ہے۔ ایشیاء پیسفک کیلئے محض9فیصد بجٹ ہے۔ یوں یہ رقم بہت کم ہے اور پناہ گزینوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کی وجہ سے یو این ایچ سی آر اور دیگر ادارے پناہ گزینوں کی تعداد کم بتاتے ہیں۔

حال ہی میں یو این ایچ سی آر نے کل افغان پناہ گزینوں کی تعداد 3.2 سے بڑھا کر 3.7ملین کر لی ہے۔ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر)کارڈز کے حامل 1.4ملین ہیں۔ افغان سٹیزن کارڈز(اے سی سی) کے حامل 8لاکھ40ہزار ہیں۔ 7لاکھ 75ہزار بغیر کسی دستاویز کے ہیں اور 7 لاکھ اگست2021کے بعد آئے ہیں۔

نئے آنے والے پناہ گزینوں کیلئے طالبان حکومت کے مطالبے پر سرحدیں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ تاہم چمن بارڈر سے یہ لوگ پاکستان میں داخل ہو گئے تھے اور یہ عمل دونوں طرف بھاری رشوت دے کر ہی مکمل ہوا ہے۔

یو این ایچ سی آر بالواسطہ طور پر بتاتا ہے کہ طالبان حکومت کے بعد آنے والوں کی دستاویزات تو لی گئی ہیں،لیکن حکومت نے انہیں رفیوجی رجسٹر کرنے کی اجازت نہیں دی۔البتہ یہ ڈیٹا شارپ اور سحر نامی پارٹنر تنظیموں کے ذریعے لیا گیا ہے۔ سحر بلوچستان میں کام کر رہی ہے اور شارپ پاکستان کے باقی حصوں میں کام کر رہی ہے۔ یو این ایچ سی آر نے بھی ان تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ رجسٹریشن کا عمل آہستہ کر لیں۔ درمیان میں اسلام آباد میں ایک مہینہ رجسٹریشن مکمل طو رپر بند بھی رہی ہے۔ عام حالات میں بھی رجسٹریشن کے عمل میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔

ان نئے آنے والے پناہ گزینوں میں بہت زیادہ کمزور یا خطرے کا شکار گروپس ہیں۔ شیعہ، ہزارہ، انسانی حقوق کے کارکن، میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ افراد، خواتین، اکیلی لڑکیاں اور بیوائیں ہیں۔ ان سب کو دھکیل کر واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ان 7لاکھ کے علاوہ دیگر کو بھی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شروع میں آئے اور کسی وجہ سے ان کے پی او آر کارڈز اور اے سی سی کارڈز نہیں بن سکے۔ ان سب کیلئے کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد17لاکھ ہے، جنہیں بے دخل کیا جائے گا۔ اور جس طرح یہ عمل چلایا جا رہا ہے، اس سے کافی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے خلاف ایک منظم نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ سمیت دہشت گردی کے واقعات میں افغان پناہ گزین شامل ہیں۔ اس میں کس حد تک صداقت ہے؟

صبا گل خٹک: حکومت کے مطابق 24میں سے 14 وارداتوں میں شامل تھے۔ افغان سارے فرشتے تو نہیں ہو سکتے، ضرور ایسے بھی کچھ ہونگے جو دہشت گردی یا جرائم میں ملوث ہیں۔ان کی شناخت کی جائے اور اس کے بعد ان کا ٹرائل کر کے سزا دی جائے۔

ریاستی سطح پر ایک نفرت انگیز بیانیہ جاری کیاگیا ہے۔ میڈیا نے بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیانیہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو بے حد نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اب تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے پنجاب میں عورتوں کا ریپ کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت تو پاکستان وجود بھی نہیں رکھتا تھا۔کچھ صحافیوں نے ان تمام مسائل کا ذمہ دارافغان پناہ گزینوں کوٹھہرایاہے اور ان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے کاجوازبنایا ہے۔ البتہ یہ اجتماعی سزا یا ایف سی آر طرز کی کارروائی کسی طور بھی درست نہیں ہے۔

افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے سندھ میں بھی ایک نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے ذریعے سے سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں قومی مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس معاملے کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ قوموں کے آبادیاتی تبدیلی کے مسائل بھی نہ پیدا ہوں اور افغان پناہ گزینوں کو بھی محفوظ زندگی دی جا سکے؟

صبا گل خٹک: سندھ میں دو طرح کا موقف نظر آ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی قوم پرستانہ قسم کا موقف ہے اور دوسرا موقف رفیوجی رائٹس کا ہے۔ کچھ انسانی حقوق کے کارکنوں نے افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کی پالیسی کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے کہ یہ پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔
قوم پرست یہ ایشو اٹھا ر ہے ہیں کہ افغان پناہ گزین ہماری ڈیموگرافی خراب کر رہے ہیں۔ اعداد و شمارمیں البتہ ایسا کوئی ثبوت نظر نہیں آرہا ہے۔

ان کا موقف یہ بھی ہے کہ سندھ میں لوگ بہت غریب ہیں اور میزبان آبادی بہت کچھ برداشت کر رہی ہے۔ اور مہاجرین کو ویلکم نہیں کر سکتے اور یہ کہ جو حکومت کر رہی ہے وہ ٹھیک کر رہی ہے۔ غربت کی بات صحیح ہے، لیکن افغان پناہ گزینو ں کے جا نے سے غربت میں کمی نہیں آئے گی۔ ان کے خیال میں انسانی حقوق کا مکالمہ سامراجی مکالمہ ہے، جس پر عملدرآمد نہیں ہونے دینگے۔ اسی اثناء میں وہ ڈویلپمنٹ اور ڈیموگرافی کے مکالمہ پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے، وہ بھی تو مغربی اور سامراجی ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے اپنے زینوفوبیا کو جواز دیا جا رہا ہے۔

یہ کہتے ہیں کہ افغانوں سے آبادی کا تناسب بدل رہا ہے تو اس پر اعداد و شمار کو دیکھنا چاہیے۔ سندھ میں سب سے کم افغان پناہ گزین آباد ہیں۔ ڈیموگرافی کے حوالے سے سندھ کی پوری آبادی تقریباً57ملین ہے۔ اس میں ایک ملین افغان پناہ گزین بھی سندھ میں موجود نہیں ہیں۔ یہ محض چند لاکھ ہی ہیں، جو ان کی ڈیموگرافی کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ان کو لگتا ہے کہ یہ کچھ علاقوں میں زیادہ مرکوز ہیں اور شاید وہاں ڈیموگرافی بدل سکتی ہے، لیکن ان کے پاس تو ووٹ کا حق ہی نہیں ہے۔ یوں وہ کیسے ڈیموگرافی تبدیل کر سکتے ہیں؟ افغان تو الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، ان کے پاس ووٹ کا حق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس شہریت موجود ہے۔

تاہم سندھ میں افغانوں اور پختونوں کے خلاف جو نفرت انگیز قسم کی آگ قوم پرستوں کی طرف سے لگائی گئی ہے، اس سے پاکستان کی ایتھنک فالٹ لائنز بالکل سامنے آگئی ہیں۔ قوم پرست پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس عمل میں تجزیے کے طبقاتی اور دیگر پہلوؤں کو وہ بھول چکے ہیں۔

یہ ضرور ہے کہ کراچی کے کچھ علاقوں میں مرکوز آبادی ہے، لیکن ان جگہوں کوریاست نے آباد کیا تھا۔ سہراب گوٹھ ریاست نے بنائے ہیں۔ کراچی پورٹ ہے، اور اسی کے ذریعے سارے ہتھیار آئے، جنہیں افغانستان اور کشمیر میں بھی استعمال کیلئے بھیجا جاتا رہا ہے۔ پورے افغان جہاد کو ڈرگز کے پیسے سے فنانس کیا گیا اور اس میں پاکستان ہی نہیں مغربی ممالک بھی شامل تھے۔

ڈرگز اور ہتھیاروں کے علاوہ مدرسوں کا بھی ایک پہلو ہے۔ یہ بھی ریاستی سپانسرشپ کے تحت بنائے گئے تھے اور کراچی میں بھی موجود ہیں۔ اب اس سب کے ری ایکشن کیلئے جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں یہ پہلو ہم نہیں دیکھتے ہیں اور غریب افغان پناہ گزینوں کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس سب کا طبقاتی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، ولنرایبلٹی کو سمجھنے اور ایتھنک پہلو کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انہیں سب افغان اور پختون ایک لگتے ہیں، جو کسی حد تک ہیں بھی، لیکن افغانوں میں ہزارہ، تاجک، ازبک اور اسماعیلی اور ترکمان بھی ہیں۔ افغانستان میں 38فیصد پختون ہیں۔ نفرت انگیز بیانیے کی ترویج کرنے کی بجائے،اس سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ان پناہ گزینوں میں سے بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان سے ہمیں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کے باہر موجود رشتہ دار ان کے اخراجات کیلئے رقوم بھیجتے ہیں، وہ پیسہ ملک میں آتا ہے۔ انہیں خطرے کے طور پر دیکھنے کی بجائے خوش آمدید کہنے کی ضرورت ہے۔ وہ بہت کچھ ہمیں دے سکتے ہیں، لیکن ہم نے انہیں نفرت ہی دی ہے۔ اس کی وجہ دو ملکوں میں ایک عجیب ٹکراؤ اور نفرت کا رشتہ ہے اور اس ٹکراؤ اور نفرت کو مزید مضبوط بنا دیا گیا ہے۔

انخلاء کی اس مہم کے دوران پناہ گزینوں کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے؟

صبا گل خٹک: پولیس مسلسل گرفتاریاں کر رہی ہے۔ جن کے پاس پی او آر کارڈز ہیں انہیں بھی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ پختونوں کو بھی افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ ایک 17 سالہ پختون بچے کو کراچی سے اٹھا کر افغانستان کیلئے بھیج دیا گیا۔افغان پناہ گزین ڈرے ہوئے ہیں، اپنے ٹھکانوں سے باہر نہیں نکل رہے، روزی نہیں کما پارہے۔ جن کے پاس کارڈز ہیں وہ کارڈ بھی پولیس پھینک دیتی ہے۔ جون کے بعد کارڈوں کی تجدید بھی نہیں کی گئی۔ ابھی نوٹیفکیشن تو آگیا ہے کہ انہیں دسمبر تک تجدید شدہ ہی سمجھا جائے لیکن غیر یقینی صورتحال میں لوگوں کو کئی کئی ماہ تک رکھنا ایک خوفناک کیفیت ہے۔ پولیس مسلسل انہیں ہراساں کرتی ہے۔ گرفتار کیا جاتا ہے اور تین سے پانچ ہزار روپے لیکر رہا کیا جاتا رہا ہے۔ ابھی جب انخلاء کی دھمکی دی گئی ہے تو پاکستانی ویزہ کی بلیک مارکیٹ میں قیمت 2ہزار ڈالر تک تجاوز کر چکی ہے۔ آپ آن لائن اپلائی کریں تو ویزہ کی منظوری ملتے مہینوں لگ جاتے ہیں، لیکن اگر دو ہزار ڈالر دیں تو چوبیس گھنٹے میں ویزہ مل جاتا ہے۔ یہ ریٹ انخلاء کی پالیسی کے بعدبڑھے ہیں، پہلے چار سے پانچ سو ڈالر میں ویزہ بلیک میں مل جاتا تھا۔

اسی طرح پولیس نے بھی اپنے گرفتاری اور رہائی کے ریٹ بڑھا دیئے ہیں۔ پی او آر کارڈ کے حامل افغانوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مردوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور خواتین حراستی مراکز کے باہر انتظار کرتی رہتی ہیں۔ شناختی کارڈ کے بغیر پاکستانی شہریوں کو بھی گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں پولیس خوب کمائی کر رہی ہے۔ ویزہ سے متعلق حکام بھی کمائی میں مصروف ہیں۔ افغانستان سے بھی پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگانے کے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں اطراف پناہ گزینوں کو اذیتوں سے پیسے کمائے جا رہے ہیں۔ رشوت لیکر شناختی کارڈبنا کر دینے کا کاروبار بھی ہے۔ ماضی میں 50ہزار روپے لیکر شناختی کارڈ بنایا جاتا تھا، اب اس رقم میں بھی اضافہ ہو گیا ہوگا۔ دونوں اطراف لوگ ملوث ہیں اور ہمیشہ سے ایسے ہوتا آیا ہے۔

عورتوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اکیلی عورت کو افغانستان بھیجنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔ وہاں عورتوں کو کام کی اجازت نہیں ہے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو پولیس یا فوج میں ہونے کی وجہ سے طالبان کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ان کے خاندانوں کو اب واپس افغانستان کس طرح بھیجا جا سکتا ہے؟ ہزارہ اور دیگر زبانیں بولنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اکیلی خواتین ہیں، جن پر این جی اوز میں کام کرنے کی وجہ سے طالبان نے اسلام مخالف ہونے اور جبری مذہب تبدیل کروانے جیسے الزامات لگارکھے ہیں۔ ان خواتین کو واپس بھیجنا انتہائی خطرناک ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کچھ لڑکیوں نے خودکشیاں کی ہیں اور کچھ نے کوشش کی ہے۔

حراستی مراکز کے حالات بہت ہی غیر انسانی ہیں۔ افغانستان میں شدید سردی ہے اور جس طرح انہیں سرحد پار بھیجا جا رہا ہے۔ آگے نہ کوئی ٹھکانا ہے اور نہ ہی کوئی گھر ہے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو سالوں سے یہی آباد ہیں، انہیں اپنے گاؤں اور رشتہ داروں کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے۔ ایسے کیسز بھی ہیں، جس میں افغان مردوں اور عورتوں نے پاکستانی شہریوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں۔ ایک پاکستان عورت کو اس کے افغان شوہر نہ افغانستان ساتھ نہ جانے کی وجہ سے قتل بھی کیا ہے۔

جو بچے یہاں پیدا ہوئے، ان کو تو شہریت کا حق ملنا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بچے پیدا ہوتے ہیں، وہ وہیں کے شہری کہلاتے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ کے لوگ بچوں کی پیدائش کیلئے امریکہ اور دیگر ملکوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انکے بچوں کو وہاں شہریت مل سکے، لیکن یہاں جو پیدا ہوتے ہیں، انہیں غیر رجسٹرڈ ڈکلیئر کیا جا رہا ہے۔

ریاستی اہلکاران اور بااثر شہریوں کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو انخلاء کیلئے بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے اور ان کو مالی نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔ یہ بلیک میلنگ کس نوعیت کی ہے اور مالی نقصان کس طرح سے پہنچایا جا رہا ہے؟

صبا گل خٹک: بلیک میلنگ کے کچھ پہلو ؤں کا تو ہم پہلے تذکرہ کر بھی چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سب سے زیادہ تو یہاں سے جانے والوں کو مالی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ان کے کاروبار اونے پونے داموں لوگ لے رہے ہیں۔ جب وہ بارڈر پر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ وہ50ہزار روپے سے زائد کی رقم ساتھ نہیں لے کر جا سکتے۔ انہیں مویشی بھی نہیں لے جانے دیئے جا رہے ہیں۔ اب مویشیوں کی تو شہریت نہیں ہوتی کہ انہیں پاکستان سے باہر لے جانے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ تاہم یہ سب کچھ انہیں اونے پونے داموں انتہائی نقصان میں فروخت کرنا پڑرہا ہے۔ اس سب کا فائدہ مقامی لوگ اٹھا رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کو افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کے حوالے سے کیا موقف اپنانا چاہیے اور اس وقت افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کو روکنے کیلئے کیا مطالبات کئے جا سکتے ہیں یا کئے جا رہے ہیں؟

صبا گل خٹک:بائیں بازو اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کی ایک خاص تعداد نے وہ اقدامات لئے ہیں جو کچھ اقدامات لئے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، سندھ ہائی کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کی گئی۔ دونوں جگہوں پر یہ پٹیشنز مسترد کر دی گئیں۔ نیشنل ویمن کمیشن اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس بھی گئے اور انہوں نے وزارت داخلہ سے اپیل بھی کی ہے۔

یورپی ملک بھی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے جی ایس پی پلس (GSP-Plus) سائن کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے کنونشنز پر پاکستان نے عملدرآمد کرنا ہے۔ہم منافع اور سبسڈی حاصل کرنے کیلئے تو ہمیشہ تیار رہتے ہیں، لیکن کنونشنز کے پہلوؤں پر عملدرآمد کیلئے ہم بالکل آمادہ نہیں ہوتے۔ ان عوامل پر بھی ہم نے کوشش کی ہے لیکن کوئی عمل نہیں ہو رہا ہے۔

ہمیں مغربی ملکوں پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ جو کنونشنز انہوں نے سائن کئے ہیں ان پر عملدرآمد کریں۔ دوحہ میں ایک غیر ذمہ دارانہ معاہدہ کیا گیا، جس میں لوگوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ ہمیں آواز اٹھانی چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ طالبان کی حکومت کا اندھا دھند جینڈر اپارتھائیڈ ختم کرنے کے حوالے سے اقدامات کیلئے آواز اٹھانی چاہیے۔ افغانستان اس میں رہنے والے لوگوں کیلئے محفوظ ہونا چاہیے۔

شروع میں تو طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتقامی کارروائیاں نہیں کرینگے۔ تاہم دو تین ماہ بعد ہی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگا دیں، کام پر بھی پابندی لگائی گئی۔ عوامی سطح پر خواتین کے نکلنے پر پابندی لگا دی گئی، محرم کے بغیر سفر پر پابندی لگا دی گئی۔ اب 25لاکھ سے زائد بیوائیں گھروں میں بند ہو کر مر تو نہیں سکتیں۔

عالمی سطح پر بھی اس پر آواز اٹھائی جانی چاہیے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جس طرح بے وقار کر کے ان افغان مہاجرین کا انخلاء کیا جا رہا ہے، اس کے خلاف پاکستان میں آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ یہ نگران حکومت کا مینڈیٹ بھی نہیں ہے۔ اب میڈیا بھی اسی لائن پر لگ گیا ہے اور وہی بیانیہ پروموٹ کر رہا ہے۔ یہ وہ سب مسائل ہیں، جن کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ میری نظر میں صورتحال کوئی زیادہ پرامید نہیں ہے، بلکہ کافی مایوس کن ہے۔ اس صورتحال میں اگر ہم کوئی ضرب بھی کہیں لگا لیں تو سب انہیں تو کچھ غریب افغان پناہ گزینوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔