طارق رحمن
اگر،اتفاق سے، آپ کھلے ذہن کی بجائے مندرجہ ذیل تعصبات کے ساتھ یہ تبصرہ پڑھنا چاہتے ہیں تو گزارش ہے کہ اس تبصرے کوذرا زیادہ توجہ سے پڑھئے گا۔
۱۔ مصنف ایک طبیعات دان ہے۔مصنف نے الکیٹریکل انجنئیرنگ کے بعد فزکس میں پی ایچ ڈی کی۔گویا وہ کافی ذہین ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تاریخ سے واقفیت بھی رکھتا ہے۔
۲۔مصنف کی شہرت یہ ہے کہ اس نے ایسی باتیں لکھی یا کہیں جنہیں پاکستان مخالف سمجھا جاتا ہے سو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کتاب بلا تعصب لکھی گئی ہو۔
۳۔سماجی علوم کے ماہرین کی طرح مصنف نے ’لٹریچر ریویو‘ پر مبنی کوئی باب کتاب کے شروع میں پیش کیا نہ کوئی سیکشن سو یہ کتاب کوئی عالمانہ حیثیت نہیں رکھتی۔
۴۔بعض ایسے سوشل سائنٹسٹ جنہوں نے مخصوص نظریات یا دلائل پیش کئے ان کو مناسب انداز میں ترجیح نہیں دی گئی البتہٰ مذکورہ نظریات و دلائل کی بنیاد پر پیش کی گئی تحریروں کو بطور حوالہ شامل کیا گیا ہے۔
برائے مہربانی ان اعتراضات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرا تبصرہ پڑھتے رہئے۔امید ہے یہ تبصرہ پڑھنے کے بعد آپ کتاب کا مطالعہ بھی کریں گے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پرویز ہود بھائی نے اس کتاب میں لکھا کیا ہے۔
اگر یہ پوری کتاب پڑھنے کے بعد بھی آپ کی رائے نہیں بدلتی تو یہ آپ کا مسئلہ ہے البتہٰ اگر کتاب میں پیش کئے گئے ثبوت آپ کو قائل کر دیں کہ پاکستان کی تاریخ پر لکھی گئی یہ ایک عمدہ کتاب ہے تو میں سمجھوں گا کہ میری بات سچ ثابت ہوئی۔
کتاب پانچ حصوں پر مبنی ہے۔ ہر حصے میں مختلف باب ہیں۔ کل 17 ابواب ہیں۔ گویا کافی ضخیم کتاب ہے البتہٰ قارئین کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ پرویز ہودبھائی نے سلیس زبان استعمال کی ہے۔تھیوری کے جنون میں مبتلا سماجی علوم کے ماہرین کی طرح ثقیل قسم کی اصطلاحات سے اجتناب برتا ہے۔ میں نے صفحہ اول سے لے کر آخری صفحے تک اس کتاب کو پڑھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی قاری حقائق میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ بھی اس کا ایک ایک حرف پڑھے گا۔
پہلا حصہ ہندوستان میں شناخت کی تشکیل بارے ہے۔ اس بحث کا آغاز ویدک دورسے کیا گیا ہے۔ پرویز ہودبھائی کا دعویٰ یہ ہے کہ ہندوستان کے باسیوں کی متنوع شناختیں تھیں۔مذہب بطور واحد شناخت (ہندو،مسلمان) انگریز راج کے دوران تشکیل پائی۔کتاب کے اس حصے میں پرویز ہودبھائی کی اہم کاوش سر سید، علامہ اقبال اور جناح (جنہیں وہ بانیان کا لقب دیتے ہیں)کے کردار کا بغیر کسی لگی لپٹی کے جائزہ لینا ہے۔ پرویز ہودبھائی کا شمار ان محدودے چند تاریخ دانوں میں کیا جا سکتا ہے جو ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے ہیں مگر ان شخصیات کے حوالے سے کسی شخصیت پرستی کا شکار نہیں ہوتے۔ پرویز ہودبھائی کے مطابق سر سید نے جدید تقاضوں کے مطابق اسلام کی تشریح کی،اقبال نے کلونیل ازم کے خلاف پر جوش شاعری کی،جناح نے اکثریت کے غلبے سے نجات کا خیال پیش کیالیکن پرویز ہودبھائی کے مطابق سر سید تعلیم نسواں کے خلاف تھے،بنگالیوں، محنت کشوں اور کسانوں۔۔۔چاہے وہ ہندو تھے یا مسلمان۔۔۔کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ سر سید محض اشراف کے مفاد کے لئے سر گرم تھے۔ علامہ اقبال اسلامی بالا دستی کے قائل تھے اور کسی طور بھی فلسفی کی تعریف پر پورا نہ اترتے تھے۔ اسی طرح جناح بھلے ہی ذاتی زندگی میں لبرل ہوں، انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال کیا۔ وہ مسلم ریاست بنانا چاہتے تھے مگر اسلامی ریاست کی اصطلاح استعمال کرتے رہے اور یوں جو تنازعہ شروع ہوا،آج تک جاری ہے۔
جناح بارے باب میں پرویز ہودبھائی نے جناح کے مخالفین کا ذکر چھیڑا ہے۔ پرویز ہودبھائی کے بقول جناح نے اپنے مخالفین کو ’شکست فاش‘ دی(ص:220-250)۔ جن مخالفین کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں مولانا مودودی، ابوالکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان شامل ہیں۔ پرویز ہودبھائی کے مطابق،یہ کہا جا سکتا ہے کہ حتمی کامیابی بہر حال مولانا مودودی کو ملی کہ آج کے پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مولانا مودودی کی جماعت یا ان کی فکر سے متاثر ہو کر شروع کی گئی اسلامی تحریکوں سے متاثر ہے۔مولانا آزاد بارے بھی کہاجا سکتا ہے کہ وقت نے ان کو درست ثابت کیا کہ جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے انہیں مودی کی ہندتوا سیاست مزید کونے میں دھکیل رہی ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان الگ قوم ہیں (دو قومی نظرئے کا مضحکہ خیز پن ملاحظہ ہو کہ اسے اب بی جے پی استعمال کر رہی ہے)۔ خان عبدالغفار خان بارے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ،جسے ریاست تشدد سے مٹانا چاہتی ہے،کے غیر اعلانیہ بانی ہیں۔ جناح کے مخالفین جو اعتراضات اٹھا رہے تھے، وہ درست نکلے۔ان اعتراضات سے عدم توجہ کا نتیجہ اس ملک نے بھگتا ہے۔
ماضی کا سفر کرتے ہوئے،صفحہ 253 پر قاری 2020 کی دہائی والے پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ ’بعد از پیدائش کی پیچیدگیاں‘ کے عنوان سے لکھے گئے سیکشن میں ان مسائل کا ذکر ہے جو روز اول سے پاکستان کو درپیش تھے۔ ایک مسئلہ تھا قومی سوال۔ پرویز ہودبھائی نے بنگلہ دیش اور بلوچستان پر تفصیل سے بات کی ہے۔ پرویز ہودبھائی نے جن باتوں کی نشاندہی کی ہے،کم ہی تاریخ دانوں نے ان کا ذکر چھیڑنے کی جرات کی ہے۔پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے کہ محکوم بنانے کے چکر میں ریاستِ پاکستان نے ہر تفریق (لسانی،قومی،ثقافتی اور تاریخی) کو بزور بندوق مٹانے کی کوشش کی۔ غیر پنجابی قومیتوں نے جب برابری، خود مختاری اور احترام کا مطالبہ کیا تو بلا چون وچرا ان کے خلاف طاقت کا استعمال ہوا۔ ان مسائل سے نپٹنے کے لئے شروع سے ہی منصوبہ بندی مفقود تھی۔ پرویز ہودبھائی اسی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ انگریز راج کے خاتمے (کانگریس) اور پاکستان کی تشکیل (مسلم لیگ) کے علاوہ ہمارے جنوب ایشیائی رہنماوں کے پاس کوئی اور ویژن تھا ہی نہیں کہ اگست 1947 میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی دو نئی ریاستوں کا کرنا کیا ہے۔
یہ پیچیدہ مسئلہ (کہ کوئی ویژن تھا ہی نہیں)تفصیل سے ایک باب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ یہاں پرویز ہودبھائی نے جرات کے ساتھ ایک سوال اٹھایا ہے جو سرکاری طور پر نصابی کتابیں لکھنے والا مصنف کبھی اٹھانے کی جرات نہیں کرے گا(اشتیاق احمد کی کتاب Punjab Partitioned میں البتہٰ اس سوال پر بحث کی گئی ہے)۔پرویز ہودبھائی پوچھتے ہیں: کیا پاکستان کے لئے اس قدر بھاری قیمت چکانا کہیں گھاٹے کا سودا تو نہ تھا؟
مصنف کا خیال ہے کہ عصر ِحاضر کا پاکستان جاگیرداروں اور اعلیٰ ریاستی عہدوں پر فائز افراد (فوج، عدلیہ،نوکر شاہی، سیاستدان)کے لئے تو گھاٹے کا سودا نہیں مگر اقلیتیں (لسانی بھی،مذہبی بھی) ماری گئی ہیں۔ ایک اور باب ہے،جو میرے خیال سے بہت سے لوگوں کے لئے اشتعال انگیز ہو سکتا ہے،بعنوان’نطریہ پاکستان کیا ہے؟‘۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ نظریہ پاکستان کی کوئی متفق علیہ تعریف مقرر نہیں ہو سکی گو نصابی کتابوں اور میڈیا کی مدد سے یہ نظریہ روز بچوں کے دماغ میں ٹھونسا جاتا ہے۔ عملی طور پر،نظریہ پاکستان کو اسلامی ریاست کا مترادف بنا دیا گیا ہے۔ اسلامی ریاست کیا ہے۔۔۔وہاں حکومت طالبان کی ہو یا کسی اور کی۔۔۔اس بابت کوئی وضاحت موجود نہیں۔
’پاکستان اسلامی ریاست کیوں نہ بن سکا؟‘کے عنوان سے لکھے گئے ایک بے باک باب میں پرویز ہودبھائی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا کوئی متفقہ خاکہ ہی سر سے موجود نہیں۔ وہ ’سیاسی اسلام‘ بارے خبردار کرتے ہوئے البتہٰ کہتے ہیں کہ ’تمام اسلامی فرقوں اور دیگر مذاہب کا برابر احترام ہونا چاہئے‘(ص 395)۔ بہ الفاظ دیگر،ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو صحیح معنوں ایک سیکولر ریاست ہونا چاہئے (جس سے مراد لادینیت یا مذہب کی تضحیک نہیں)۔
’پاکستان پرائیٹورین ریاست کیوں ہے؟‘کے عنوان سے لکھے گئے باب میں فوج کے غالب کردار پر ایک جراتمندانہ کوشش کی گئی ہے البتہٰ عائشہ جلال،عائشہ صدیقہ، عقیل شاہ اور بہت سے دیگر مصنفین اس موضوع پر لکھ چکے ہیں۔علمی اعتبار سے یہ باب سیاست میں فوج کی مداخلت بارے کسی نئی بات کا اضافہ کرتا نظر نہیں آتا۔ فوجی آمریتوں اور عمران خان کے ہائبرڈ رجیم جیسے سیاسی تجربوں بارے البتہٰ پرویز ہودبھائی کا تجزیہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان تمام سیاسی تجربوں کے دوران اسلام کا سیاسی استعمال ہوا۔ ہر سیاسی تجربے کے دوران کمزور طبقے(خواتین، مذہبی و لسانی اقلیتیں) مزید جبر کا شکار ہوئے۔ ضیا دور میں کی گئی قانون سازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت مرد کے مقابلے پر کمتر بنا دی گئی جبکہ مذہبی اقلیتوں (اور بعض دیگر افراد)کے سر پر توہینِ مذہب کی تلوار لٹکا دی گئی۔ مشرف نے بھلے ہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا نعرہ لگایا ہولیکن حقیقت میں بھارت دشمن حلقوں کی سرپرستی کی یا ریاست پر حملہ آور اور اقلیتوں کا خون بہانے والے گروہوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ عمران خان نے بھی ہر کسی سے اسلامی ریاست کا وعدہ کیا گو اسلامی ریاست کی تعریف کبھی مقرر نہیں کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی جنگجووں کو من مرضی کی تشریح کرنے کا موقع ملا۔مزید یہ کہ عمران خان نے ہمیشہ طالبان کی تعریف کی یا کم از کم ان کی مخالفت کبھی نہیں کی۔ یوں مذہب کے نام پر مسلح تشدد کو فروغ ملا۔
اسی پس منظر میں بھٹو بارے لکھا گیا باب تازگی کا احساس دلاتا ہے۔ عمومی طور پر پاکستانی لبرل جو فوج کے بھی خلاف ہیں اور نواز شریف و عمران خان جیسے دائیں بازو کے سیاستدانوں کے بھی،وہ عمومی طور پر پی پی پی (یا اے این پی جیسی چھوٹی جماعتوں) کی جانب سیاسی جھکاو رکھتے ہیں۔ بھٹو بارے پرویز ہودبھائی کا یہ دعوی ٰ حقیقت پر مبنی ہے کہ بھٹو کی شخصیت میں کئی عیب تھے۔ بھٹو میں منتقم المزاجی، بے رحمی اور مطلق العنانی کا عنصر پایا جاتا تھا۔اقتدار کے حصول کے لئے بھٹو نے بائیں بازو کو ساتھ ملایا مگر حکومت میں آ کر مزدوروں پر گولی چلائی جبکہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو بے عزت کیا،جیل میں ڈالا (جے اے رحیم)یا غائب کروا دیا۔ اتفاق سے بھٹو بارے میری بھی یہی رائے ہے۔
شناخت بارے پرویز ہودبھائی کا باب حقیقی معنوں میں تنقیدی سوچ کا بھی حامل ہے اور متاثر کن بھی۔ بلا شبہ پاکستانی ریاست ہمیں بتاتی آئی ہے کہ ہم ہندووں اور سکھوں سے مختلف ہیں (اب ہندوستان میں ہندتوا بھی یہی کر رہی ہے)مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تنوع زندگی میں رنگ بھرتا ہے۔ یہ کہ پاکستان پانچ ہزار سال قبل ہی وجود میں آ گیا تھا،ایک مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں جسے پرویز ہودبھائی نے انتہائی دانائی کے ساتھ رد کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک ’عالمگیر ثقافت‘ دلچسپی سے خالی ہو گی۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ کتاب پاکستان میں تاریخ نویسی کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کتابوں کی کمی نہیں جو نظریاتی تعصب کا شاہکار ہیں۔ ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جن میں تحقیقی عرق ریزی تو کی گئی ہے مگر کتاب کا موضوع کسی محدود سے اکیڈیمک مسئلے کا جواب تلاش کرتا ہے جبکہ متنازعہ موضوعات سے اجتناب برتا جا تا ہے۔
پرویز ہودبھائی کی کتاب بے شمار موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب ویدک دورسے شروع ہو کر موجودہ دہائی کے پاکستان پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ایک ایسے سائنسدان کی تحریر ہے جس کی سوچ واضح ہے۔ ہر بات ثبوت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اگر آپ سوشل سائنسٹسٹ ہیں اور آپ کی کسی تحریر کا حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں تو خندہ پیشانی سے کام لیجئے گا کیونکہ پرویز ہودبھائی نے وہی حوالے پیش کئے ہیں جن کا تعلق ان کی دلیل سے بنتا تھا۔
میں پیشہ ور تاریخ دانوں، صحافیوں بالخصوص طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی تجویز دوں گا جو تاریخ کے نام پر پراپیگنڈے سے بھر پور حماقتوں سے روشناس کرائے جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں گومگو کا شکار ہیں۔
بشکریہ: دی فرائیڈے ٹائمز۔
ترجمہ: فاروق سلہریا