نقطہ نظر

زندگی کی بقا دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش سے زیادہ ناگزیر

آتش خان

زندگی فطرت کی سب سے زیادہ دلکش، پیچیدہ اور حیرت انگیز حد تک ترقی یافتہ شکل ہے۔سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق دنیا میں قدرتی طور پر تقریباً 87 لاکھ اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں۔87لاکھ میں سے زیادہ تر جانور ہیں ،جبکہ باقی کی تعداد پودوں اور دیگر اقسام پر مشتمل ہے۔ اس تعداد کی بڑی اکثریت فی الوقت قابل شناخت نہیں ہے۔اب تک کم و بیش 12 لاکھ جانداروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔زمین کے 14 فیصد اور سمندروں کے 9 فیصد جانداروں ہی کی اب تک نشاندہی کی گئی ہے۔انسانی دماغ میں جنم لینے والا شعور زندگی کی ترقی کا بلند ترین اظہار ہے ،جو زندگی اور فطرت کو اپنے وجود کا ادراک فراہم کرتا ہے۔زندگی کو شعور کو جنم دینے میں اور جانداروں کی مختلف انواع کو موجودہ حالت تک پہنچنے میں اربوں سال لگے ہیں۔تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق زمین پر زندگی اپنی ابتدائی شکل میں 3 ارب20 کروڑ سال پہلے وجود میں آ گئی تھی۔انسان اس سیارے پر زندگی کی سب سے ترقی یافتہ شکل اور سب سے آخر میں نمودار ہونے والی صنف ہے۔اس کی تاریخ محض 2 لاکھ سال پرانی ہے اور انسانی تہذیب کی تاریخ اور بھی مختصر ہے ،جسے محض 6 ہزار سال ہوئے ہیں۔ زندگی محض جانداروں کے انفرادی جنم سے شروع اور ان کی موت سے ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی اور موت کا یہ سفر جانداروں کی ترقی کا اور آگے بڑھنے کا عمل ہے۔جانداروں کے جنم لینے اور مرنے کا عمل محض ایک ہی دائرے میں نہیں گھومتا بلکہ ترقی اور آگے بڑھنے کا عمل ہے۔آج انسانوں سمیت جو بھی جاندار زمین پر موجود ہیں یہ صرف وہ نہیں جو وہ آج ہیں بلکہ کروڑوں سال پرانے آباؤ اجداد کا تسلسل ہیں ،جو بقا کی جدوجہد میں کامیاب ہوئے ہیں۔

جس کائنات کا ہم حصہ ہیں یہ اپنے زمان و مکان میں لامحدود ہے۔یہ کائنات مختلف کہکشاؤں کے اندر ان گنت ستاروں اور سیاروں پر مشتمل ہے۔صرف زمین ہی نہیں یا صرف زمین پر نامیاتی اجسام ہی ترقی اور تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر رہے ،بلکہ فطرت میں جاری رہنے والا تبدیلوں کا ارتقائی اور انقلابی عمل ساری کائنات میں جاری ہے۔انسان ہزاروں سالوں کی اجتماعی محنت کے نتیجے میں ہونے والی سائنسی ترقی کی وجہ سے اس قابل ہوا ہے کہ وہ کائنات کی وسعتوں میں جھانک سکے، اس کی تاریخ کو جان سکے، اس کے قوانین کو سمجھ سکے۔گزرتے وقت کے ساتھ کائنات کے حوالے سے ہمارے علم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔نئی دریافتوں کے ساتھ کائنات کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔کائنات کی وسعتوں کے پیش نظر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی اور سیارے میں زندگی موجودہے؟اتنی وسیع کائنات میں اس وقت کی ہماری معلومات کے مطابق کہیں اور زندگی موجود نہیں ہے اور زندگی کے ہونے کے امکان کو مکمل رد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی ترقی کے باوجود ہمارا کائنات کے حوالے سے علم اپنے عہد تک محدود ہے۔ اس وقت تک ہماری ٹیکنالوجی کائنات کی وسعت کے مقابلے میں محدود اور فطرت کے قوانین کے تابع ہے۔ بہت سے سیارے ہزاروں نوری سال کی دوری پر موجود ہیں ،جن پر پہنچنے کے لیے روشنی کی رفتار سے ہزاروں سال درکار ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کے نتیجے میں مادہ توانائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس رفتار پر سفر کرنا انسان کے لیے ناممکن ہے۔اس لیے بہت سے سوالات کے جوابات ہمیں مستقبل کی نسلوں کے لیے چھوڑدینے چاہئیں۔کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ ہٹانے اور قوانین فطرت کو دریافت کرنے اور انہیں حق میں استعمال کرنے سمیت دیگر سیاروں میں زندگی کی تلاش کا سائنسی عمل جاری رہنا چاہیے۔انسان فطرت کے قوانین کو سمجھ کر انہیں اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے لیکن ان سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔جیسا ہیگل نے کہا تھا‘‘ سچی آزادی لازمیت کا انکار نہیں بلکہ لازمیت کو جاننا ہے۔’’

کسی اور سیارے میں زندگی ہے یا نہیں انسانوں کی بقاء کے لیے اولین مسئلہ نہیں ہے ،بلکہ فوری مسئلہ زمین پر انسانوں اور دیگر جانداروں کی زندگی کو لاحق بقا کے فوری مسائل ہیں۔اس بات سے قطع نظر زندگی کیسے اور کب وجود میں آئی ہے اس حقیقت سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا ہے کہ زندگی ایک حقیقت ہے جسے قائم رکھنے کی ہر جاندار کوشش کرتا ہے۔ وہ انسان بھی مرنا نہیں چاہتے جو موت کے بعد ابدی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور وہ بھی نہیں جو مرنا چاہتے جو نہیں یقین رکھتے۔زندگی کے لیے مخصوص سازگار ماحول درکار ہے ،جو زمین پر ابھی تک میسر ہے۔انسان کسی رنگ، نسل، ذات ،مذہب ،علاقے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ،وہ پانی، آکسیجن، خوارک اور حرارت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔انسان کا کائنات کے حوالے سے کوئی بھی نقطہ نظر کیوں نہ ہو، وہ ان سیاروں میں زندہ نہیں رہ سکتا ہے جو سورج کے بہت نزدیک ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ گرم ہیں ۔ وہ ان سیاروں میں بھی نہیں زندہ رہ سکتا ہے ،جو سورج سے دوری کی وجہ سے بہت زیادہ ٹھنڈے ہیں۔یہ وہ مادی حقائق ہیں جن کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔

سورج سے زمین کی مناسب دوری کی وجہ سے زمین پر زندگی کے لیے سازگار ماحول بنا جس وجہ سے زندگی نے نشونما پائی ہے۔بڑے پیمانے پر درجہ حرارت میں تبدیلی زمین سے بھی زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اس وقت تیزی سے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ زندگی کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔گزشتہ سال ایک لاکھ سالوں میں گرم ترین سال تھا۔ اس سال عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کی سطح سے1.5سنٹی گریڈ کی سطح تک پہنچ گیا۔ عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے مطابق آئندہ 5سال میں عالمی درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گا۔66 فیصد امکان ہے کہ 2023 اور 2027 کے درمیان دنیا میں قبل از سرمایہ داری کے مقابلے میں1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہو گا۔عالمی درجہ حرارت بہت تیزی سے خطرناک حد کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں فطرت کی بحالی ناممکن ہو جائے گی۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے انسان کے پاس بہت کم وقت ہے۔گرمی کی شدت میں اضافہ،ہیٹ ویوز، بے موسمی بارشیں،سیلاب، سمندری طوفانوں میں اضافہ، سموگ، بادلوں کا پھٹنا، وباؤں اور کینسر جیسی بیماریوں میں اضافہ اس تباہی کے سلسلے کی کڑیاں ہیں ،جن میں خوفناک جد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس ماحولیاتی آلودگی سے جانداروں کی بہت سی اقسام معدوم ہو چکی ہیں اور بہت سی اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے10 لاکھ حیاتیاتی اقسام کا ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 1556 انواع معدوم ہو چکی ہیں۔ان میں پودوں کی 500اقسام بھی شامل ہیں ،جن میں کئی اقسام طبی اہمیت کی حامل ہیں ،جن کو ماضی میں بہت سی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جاتا تھا۔جانداروں کے خاتمے کا یہ سلسلہ اتنی تیزی سے جاری ہے ،اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سے جانداروں کی اقسام دریافت ہونے سے پہلے ہی معدوم ہو جائیں گی۔جانداروں کی یہ اقسام ارتقاء کو سمجھنے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ معدومیت کے بحران کا خطرہ دیگر جانداروں کی انواع تک محدود نہیں ہے ،بلکہ نسل انسان کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

انسان کا فطرت سے آزادانہ کوئی وجود نہیں ہے ۔وہ اس فطرت کا مالک یا مرکز نہیں بلکہ دیگر جانداروں کی انواع کی طرح ایک نوع ہے ،جو فطرت کا حصہ ہے۔انسان کو بھی اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے وہی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جو دیگر جانداروں کی زندگی کی بقا ء کے لیے ضروری ہیں۔ہر جاندار کو توانائی حاصل کرنے کے لیے غذا، افزائشِ نسلِ کے لیے جنسی عمل اور ماحول سے مطابقت کے لیے پنا ہ کی ضرورت ہوتی ہے۔تمام جاندار ہر وقت انہی مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔جانداروں کی یہ جدوجہدفطرت کے معروضی نظام میں جاری ہے ،جسے ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ایکو سسٹم جانداروں اور فطرت کے معروضی طبعی ماحول کے مابین تعلق کا اظہار ہے۔ایکو سسٹم میں ایک جاندار سے دوسرے جاندار تک مادہ اور توانائی غذائیت کی شکل منتقل ہوتے ہیں۔زندگی کی اس زنجیر کو قائم رکھنے میں جانداروں کی ہر نوع کی اپنی اہمیت ہے۔ان میں سے جنتی زیادہ انواع معدوم ہوتی جائیں گی ،یہ زنجیر اتنی ہی کمزور ہوتی جائے گی۔مختلف انواع کا خاتمہ انسانی تہذیب کے خاتمے کی طرف اشارہ ہے۔جانداروں کی معدومیت ایکو سسٹم میں ایک نہ ختم ہونے والا خلا پیدا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی پیچیدہ قسم کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ان میں سر فہرست کئی جان لیوا بیماریاں، زمین کی زرحیزی میں کمی اور نایاب پودوں اور جانوروں کا ناپید ہونا ہے۔کرونا کی عالمی وبا بھی جنگلی حیات کے قدرتی مسکن میں مداخلت اور خاتمے کا نتیجہ تھی ،جس کی وجہ سے لاکھوں اموت ہوئی ہیں۔

یہ ماحولیاتی تبدیلیاں فطرت میں جاری موسمی اور جغرافیائی خودرو تبدیلیوں کا تسلسل نہیں ہیں ،بلکہ ان تبدیلیوں میں بنیادی کردار انسانی سرگرمیوں کا ہے۔انسان دیگر جانداروں کی طرح ماحول پر محض مکمل انحصار ہی نہیں کرتا ہے بلکہ ماحول پر اثرانداز ہوتا ہے اور اسے تبدیل بھی کرتا ہے۔یہ تبدیلی اس وقت آئی جب انسان نے بقاء کی فطری ضرورت کے مطابق اوزار بنانے کی صلاحیت حاصل کی۔اس سے پہلے دیگر جانوروں کی طرح انسان کی بقاء کا انحصار بھی فطرت میں موجود پھلوں اور جڑی بوٹیوں پر تھا۔اوزار ساز جاندار بننے کے بعد انسان محض فطرت میں پہلے سے موجود ایشیاء کو استعمال کرنے والا نہیں بلکہ پیداوار کرنے والا جاندار بن گیا۔یہ محض 6 سے 10 ہزار سال پرانی بات ہے ،جب انسانی تہذیب نے جنم لیا۔یہ زندہ رہنے کے لیے درکار معاشی ضروریات ہی تھیں،جنہوں نے فطرت سے تہذیب اور جانداروں سے انسانوں کو جنم دیا۔انسان کا وجود فطرت سے محنت کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ انسان ازل سے فطری وسائل کو استعمال کرتا آ رہا ہے لیکن پچھلے زمانوں کے برعکس سرمایہ داری میں پیداوار کا مقصد سرمایہ داروں کی اپنی یا دیگر انسانوں کی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ منڈی کی معیشت میں منافع کا حصول ہے۔تمام دولت جو مختلف اشیاء کی صورت میں موجود ہے ،فطرت پر انسانی محنت کی پیداوار ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں منافعوں کے لیے کی جانے والی پیداور میں اضافہ محنت کشوں کی محنت اور فطرت کے بدترین استحصال کے ذریعے کیا جاتا ہے۔سرمایہ داری میں جدید ذرائع پیداوار فطرت کی تباہی اور انسانی محنت کے استحصال کے جدید آلات ہیں۔سرمایہ داری میں دولت کی پیدواریت جتنی زیادہ ہو گی محنت اور فطرت کا استحصال بھی اتنا شدید ہو گا۔سرمایہ داری میں ضروری پیداوار اور ترسیل کے لیے توانائی کا 80 فیصد فاسلز فیول یعنی کوئلے، تیل اور گیس سے حاصل کیا جاتا ہے۔یہ ناقابلِ تجدید توانائی کے ذرائع ہیں ،جن کا سرمایہ داری میں بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔اس وقت 37 ارب میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہر سال فضا میں خارج ہوتی ہے۔فوسل فیول سے زمین گرم ہو رہی ہے۔جنگلات کو تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔ہر سال ایک کروڑ ہیکٹرپر محیط جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔سمندر بڑے پیمانے پر مچھلیوں کے شکار سے خالی ہو رہے ہیں ،جب کہ پلاسٹک کے سمندر میں جانے سے پانیوں میں تیزابیت بڑھ رہی ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔اقلیتی سرمایہ دار حکمران طبقہ منافعے کی ہوس کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں کو قرار دیتا ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ٹیئر فنڈ کی رپورٹ کے مطابق کوکاکولا، پیپسی کولا اور نیسلے دنیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک سے آلودگی پیدا کرنے والی کمپنیاں قرار پائی ہیں۔یہ کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں 6 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ کی آلودگی پھیلانے کی ذمہ دار قرار پائی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق محض 50 فاسل فیول کمپنیاں ہیں جو کہ آدھی گرین ہاؤس گیسوں کو خارج کرتی ہیں۔اس لیے گلوبل وارمنگ کے ذمہ دار تمام انسان نہیں چند سرمایہ داروں کی نہ ختم ہونے والی دولت کی اندھی دوڑ ہے۔

اس نظام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس نے زندگی کی بقاء کو یقینی بنانے کی بجائے زندگی کو ایسے خطرات سے دوچار کرنے کا موجب بنادیا ہے جو پہلے کبھی نہیں درپیش تھے۔حکمران طبقہ دیگر سیاروں میں زندگی کے امکانات کو مبالغہ آرائی سے اس لیے پیش کرتا ہے تاکہ اس زمین میں زندگی کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے درپیش سنجیدہ خطرات سے توجہ ہٹائی جائے۔خلائی تحقیقات پر سرمایہ کاری کا مقصد کائنات کے رازوں کو جان کر تمام انسانوں کو مستفید کرنا نہیں ،نہ ہی کسی اور سیارے میں انسانوں کو زندہ رکھنے کے لئے منتقل کرنا ہے ،بلکہ منافعوں کے لیے اور تسلط کے لیے اجارہ دایوں کی دوڑ کا حصہ ہے جو خشکی، سمندروں اور فضاؤں کے بعد خلاؤں پر قبضے کے لیے ہے۔آج کل چاند پر سیٹلائیٹ بھیجنے کی دوڑ لگی ہے۔نجی ملکیت اور منافعوں پر مبنی نظام میں جنم لینے والی سوچ اور ہوس انسانوں کے اندر کائنات کو بھی اپنی نجی ملکیت بنانے کی خواہش کو جنم دیتی ہے۔حکمران طبقہ زمین کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کی فکر کی بجائے زمین کو تباہ کر کے دیگر سیاروں میں فرار ہونے کے خیالی منصوبے بنا رہا ہے۔اس طبقے کی خود غرضی پر مبنی احمقانہ سوچ کے مطابق جنگوں، وباؤں اور دیگر آفات کے دوران اپنی دولت کی بنیاد پر جیسے محفوظ مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں ، ویسے ہی ماحولیاتی تباہی سے بھی فرار ممکن ہے۔سرمایہ داری میں انسان اپنی ملکیت کے سوا کسی چیز کو اپنا نہیں سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام جانداروں کے اجتماعی مسکن زمین کو برباد کیا جا رہا ہے۔فطرت سے لڑائی انسان کی اپنے آپ کے خلاف لڑائی ہے جس میں ہار انسان کی ہی ہو گی۔نجی ملکیت اور سرمایہ داری کے خاتمے کے ذریعے ہی فطرت کے حوالے سے انسانی رویہ بدل سکتا ہے ،جہاں انسان فطرت کو بیگانہ نہیں اپنا سمجھے ،ورنہ انسانی تہذیب اور دیگر جانداروں زندگی کو بربادی سے بچانا ناممکن ہے۔اشتراکی سماج میں ہی وہ وسائل میسر آ سکتے ہیں جن کی ماحولیاتی بحالی کے لیے فوری ضرورت ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts