لاہور(جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں خواتین پر طالبان کے تازہ ترین کریک ڈاؤن میں ان کے دائی بننے کی تربیت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
’انڈیپنڈنٹ‘ کے مطابق ٹرینی مڈ وائفری سٹوڈنٹس کو مزید کلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے طالبان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ انہیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیں۔
معروف عالمی خیراتی ادارے ہیومن رائٹس واچ کے ایک ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ اقدامات بچے کی پیدائش کے دوران صحت کی دیکھ بھال کے حصول کے لیے جدوجہد کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کی موت کا باعث بنیں گے۔
طالبان کی وزارت صحت عامہ کے قریبی ذرائع نے بی بی سی ریڈیو 4کی ورلڈ ایٹ ون کو بتایا کہ انہیں طالبات کے لیے طبی ادارے اگلی اطلاع تک بند کرنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ افغانستان کے مختلف صوبوں میں مڈ وائفری کے کئی اداروں نے خبررساں ادارے کو پابندی کی تصدیق کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی عبوری ڈپٹی ڈائریکٹر ہیدربار نے بتایا کہ ’یہ ان چند سہولیات میں سے ایک کو بند کرنے جیسا ہے، جو طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد اب بھی باقی رہ گئی تھیں، لیکن یہ خاصی اہم سہولت بھی ہے، کیونکہ اس پر پابندی خواتین اور لڑکیوں کی موت کا باعث بنے گی۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’طالبان نے خواتین کو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے مرد پیشہ ور افراد سے علاج کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور اب وہ جو کچھ موثر طریقے سے کر رہے ہیں وہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی پائپ لائن کو ہی کاٹ رہے ہیں۔‘
انہوں نے متنبہ کیا کہ نئے اقدامات ایک وسیع نمونے کا حصہ ہیں، جس میں طالبان خواتین کی زندگیوں کو مزید محدود کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔
افغانستان میں بچوں کی پیدائش میں اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کی موت کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ’ہمیں سانس لینے دو، ہمیں جینے دو، ہمیں تعلیم حاصل کرنے دو۔‘
بی بی سی کی افغان سروس کی اسسٹنٹ ایڈیٹر مریم امان کے مطابق اس پابندی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اس فوری پابندی سے تقریباً 17ہزار زیر تربیت طالبات متاثر ہو رہی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’آپ پانچ سال بعد کے حالات کا تصور کرسکتے ہیں، خواتین گھروں میں اکیلے بچوں کو جنم دے رہی ہونگے۔ ایسے اضلاع بے شمار ہونگے، جہاں دائیاں نہیں ہوں گی اور صحت تک رسائی ہی نہیں ہوگی۔‘
طالبان حکومت نے افغانستان میں خواتین کو ابھی تک سیلون جانے، جم میں ورزش کرنے، عوامی سطح پر بولنے یا دعا کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
کابل پر قبضہ جمانے کے ایک ماہ کے اندر ہی طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کے سکولوں میں جانے پر پابندی لگا دی تھی۔