دنیا

ایران امریکہ تنازعے میں نیا تناؤ

لال خان

پچھلے چند ہفتوں سے ایک مرتبہ پھر ایرن کی طرف امریکی سامراج کے جارحانہ عزائم جارحانہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ امریکہ کا طیارہ بردار بحری بیڑا ابراہام لنکن‘ بی52 طیارے لیے بحرروم سے خلیج فارس کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ ہفتہ 18 مئی کو امریکی سفارتکاروں نے خطے کی فضائی کمپنیوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اگر خلیج فارس پر کمرشل پروازیں کریں گے تو ان کے مسافرجہازوں کو ”عدم شناخت“ کا خطرہ لاحق ہوگا۔

امریکہ نے یہ چڑھائی ایران کیساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے ایک سال بعد کی ہے۔ اس سلسلے میں خطے کے بڑے امریکی حلیفوں اسرائیل اور سعودی عرب کی ایران کے خلاف زہریلی دشمنی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن 17 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ براہِ راست جنگ نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم بعد میں اُس نے یہ بیان بھی دیا کہ ایران لڑائی کرے گا تو یہ اُس کے ”باضابطہ خاتمے کا آغاز“ ہو جائے گا۔

قول اور فعل کا یہ تضاد پچھلے کچھ عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ ویسے تو امریکی حکمران طبقات اور ان کے پالیسی سا ز کبھی بھی اعتدال پسند ی کے قائل نہیں رہے ہیں۔ جدید امریکہ کی 239 سالہ تاریخ میں صرف 17 ایسے سال ہیں جب امریکہ کسی عسکری کاروائی میں سرگرم نہیں تھا۔

خطے کی موجودہ صورتحال پر اروندتی رائے نے اپنی حالیہ تحریر میں لکھا، ”افغانستان پر قبضے اور اس کو بمباری سے پتھر کے دور میں پہنچانے کے17 سال بعد امریکی حکومت انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جن کے خاتمے کے لئے اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ اس دوران اس نے عراق، لیبیا اور شام کو برباد کر دیا۔ ہزاروں لاکھوں زندگیاں ان معاشی پابندیوں اور جنگوں میں لقمہ اجل بن گئیں۔ پورا خطہ انتشار میں غرق کردیا گیا۔ قدیم شہر دھماکوں سے مٹی کی دھول بنا دیئے گئے۔ اس بربادی اور ملبے میں ایک حیوانیت جس کو داعش کہا جاتا ہے، کو پھیلنے دیا گیا۔ یہ ساری دنیا میں پھیل کر بلا تفریق عام انسانوں ( جن کا امریکی جنگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا) کی قتل و غارت گری کر رہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں جو جنگیں امریکہ نے چھیڑی ہیں اور جن معاہدوں کو اس نے دھتکارا ہے اس کے پیش نظر وہ خود ایک بدمعاش ریاست کی اپنی ہی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ اب وہ انہی پرانے دھمکی آمیز اور جھوٹے ہتھکنڈوں کی واردات کرتے ہوئے ایران کو بمباری سے تاراج کرنے کے درپے ہے۔“

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی خصوصاً خارجہ پالیسی میں جس شدت سے اتار چڑھاﺅ آ رہے ہیں او ر بڑھک بازی نے جو کہرام مچا رکھا ہے اس سے امریکی ریاست کے سنجیدہ ماہرین بھی لگتا ہے کہ خاصی گھبراہٹ کا شکار ہیں۔
ایران کے ساتھ امریکہ کا حالیہ تنازعہ چالیس سال پہلے شروع ہوا تھا جب ایران میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریک نے امریکی کٹھ پتلی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ نیچے اِس انقلابی تحریک کی قیادت ایران کی کمیونسٹ پارٹی (تودہ پارٹی) کے پاس تھی۔ شاہ کی سفاک حکومت اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’ساواک‘ کا ظلم و تشدد کمیونسٹوں نے ہی دہائیوں برداشت کیا تھا۔ لیکن تودہ پارٹی کی قیادت کی انتہائی خطار کارانہ پالیسیوں کی وجہ سے انہوں نے اس تحریک کی قیادت ملاں اشرافیہ کے سپرد کر دی۔ پھر ملاﺅں کی یہ آمریت، جو سرمایہ دارانہ نظام کی ہی نمائندگی کرتی ہے، چالیس سال تک امریکہ کے ساتھ اپنی دشمنی کو داخلی جبر کے لئے استعمال کرتی چلی آئی ہے۔

لیکن ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف، جو ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں، اپنے جاپان اور چین کے دوروں کے بعد یہ بیان دے رہے ہیں کہ ”اسلامی جمہوریہ ایران جنگ نہیں چاہتا اور خطے میں کوئی ایسی دیوانگی نہیں کر سکتا کہ امریکہ اس سے تصادم کر سکے۔“ دونوں اطراف سے متضاد بیانات اور بیک وقت جنگ و امن کے اشارے اس تنازعے کی پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہےں۔

امریکی سامراج کو اپنے زوال کے عہد میں ماضی کے جاہ وجلال، غلبے اور عالمی ”پولیس مین“ کے کردار کو برقرار رکھنے کے لئے جو عسکری اور معاشی طاقت درکا رہے وہ اس کے پاس نہیں ہے۔ لیکن وہ افغانستان سے لے کر عراق تک بار بار کے اعلانات کے باوجود بھی دستبردار نہیں ہو پا رہا۔

چین کے ساتھ تجارتی خسارے نے امریکی معیشت پر شدید منفی اثرات ڈالے ہیں اور چین امریکہ تجارتی جنگ کے پہلے وار دنوں طرف سے جاری ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے ہونے والی 200 ارب ڈالر کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگا دیئے ہیں۔ اس کے جواب میں چین نے 62 ارب ڈالر کی امریکی درآمدات پر انتقامی ٹیکسوں کا اعلان کر دیا ہے۔

لیکن عسکری میدان میں امریکی سامراج کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ویتنام کے بعد شام، عراق اور افغانستان میں شکستوں سے امریکی عسکری طاقت قطعاً کسی نئی جارحیت کے لئے تیار نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب مظہر ہے کہ اس نظام کے تحت تیل سے بھرے بدنصیب مشرقِ وسطیٰ میں امریکی غلبے کی کمزوری مزید انتشار ہی لائے گی۔

حکمران طبقات کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ا س خطے میں امریکہ کا کلیدی تضاد ایران کے ساتھ ہے۔ لیکن جنگوں کی غارت گری سے عوام ہی برباد ہوتے ہیں۔ یہ حکمران طبقات کے مفادات کے ٹکراﺅ اور تصام ہیں۔ نہ تو یہ عوام کے مفاد میں ہیں نہ ہی ان سے عوام کا تعلق بنتا ہے۔

ایرانی حکمرانوں نے ایران عراق جنگ کے بعد اپنی عسکری طاقت میں بہت بڑا اضافہ کیا ہے۔ وہ بڑی بحری اور فضائی افواج سے لیس ہیں۔ اسی پالیسی کا تسلسل ایران کا جوہری پروگرام بھی ہے۔ جس کو روکنے کے لئے سابقہ امریکی صدر باراک اوبامہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے ایران سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ اپنا جوہری پروگرام روکے‘ بدلے میں اس پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ شدید معاشی بحران میں گھرے ایران کو بھی اس میں فائدہ نظر آیا۔ ایران کا جوہری پروگرام وقتی طور پر تھم تو گیا لیکن اس کی ایٹمی بم بنانے کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی۔ محتاط اندازوں کے مطابق ایران اگر چاہے تو ایک سال میں ایٹم بم بنا سکتا ہے۔

2015ء میں مذکورہ بالا معاہدے کے بعد معاشی پابندیاں اٹھنے سے ایران میں جشن تو بہت منایا گیا لیکن معاشی بحالی سے ایران کے عوام کی زندگیوں میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے تین سال کے دوران ایران کے عام لوگوں میں اس معاہدے کی حمایت 76 فیصد سے گر کر 49 فیصد رہ گئی ہے۔

لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے جو نئی اور زیادہ جارحانہ پابندیاں لگائی ہیں ان میں اُس نے ہر اُس ملک سے بھی قطع تعلق کی دھمکی دی ہے جو ایران سے تجارت کرے گا۔ ان میں ہندوستان اور چین سرفہرست ہیں۔ دوسری طرف ایران کے صدر روحانی، جو ’معتدل‘ اور لبرل اصلاحات کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے ملک کی سخت گیر مذہبی اشرافیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور ساٹھ دن میں جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے شرط یہ رکھی ہے کہ یورپ، چین اور روس امریکی دھمکیوں کو رد کرتے ہوئے ایران سے تجارت کو تیز کریں۔ وگرنہ جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

یورپی ممالک، چین اور روس کے اپنے مفادات ہیں۔ امریکی منڈی سے ان کے زیادہ منافعے وابستہ ہیں۔ اس لئے ایران کی خاطر وہ امریکہ سے تجارت کو ترک کرنے سے اجتناب ہی کریں گے۔

ایران کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے۔ افراطِ زر انتہاﺅں کو چھو رہا ہے۔ 2016ء میں ایک ڈالر کے 35000 ایرانی ریال آتے تھے۔ اب بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر کے 150000 ایرانی ریال حاصل ہوتے ہیں۔ تیل کی پیداوار آدھی ہوچکی ہے ۔ غربت اور مہنگائی سے ایران کے نچلی پرتوں سے تعلق رکھنے والے اکثریتی لوگ کراہ رہے ہیں۔

لیکن اگر تصادم ہوتا ہے تو یہ جنگ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو آگ اور خون میں لپیٹ دے گی۔ ایران کوئی عراق نہیں ہے۔ اس کی فوج زیادہ منظم اور مستعد ہے۔ سماج پر ریاست کی گرفت زیادہ ہے اور اسے آبادی کے کئی حصوں میں خاصی حمایت بھی حاصل ہے جو کسی بیرونی حملے کی صورت میں بڑھ سکتی ہے۔ جنگی ہتھیار بھی خاصے جدید ہیں (اگرچہ سات سو ارب ڈالر سالانہ اپنی فوج پہ خرچ کرنے والے امریکہ سے ان کا مقابلہ نہیں بنتا)۔ ایران اس وقت ’ریورس انجینئرنگ‘ کے ذریعے ڈرون جہازوں سمیت اپنے بیشتر جنگی طیارے اور میزائل خود تیار کر رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ ایران امریکہ کو ’ٹف ٹائم‘ دے سکتا ہے۔ چند ایک جنگی جنونیوں اور احمقوں کو چھوڑ کے ان حقائق سے امریکی پالیسی ساز بھی واقف ہیں۔

امریکہ اور اس کے حواری ایران پر فضائی یا سمندری بمباری ہی کر سکتے ہیں۔ برّی فوج کی جارحیت تقریباً ناممکن ہے۔ ایران کے اسلحہ ساز ٹھکانے اور ذخیرے زیادہ تر زیرِ زمین ہیں۔ بلکہ زیر زمین سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ فضائی بمباری کی صورت میں ان میں سے بیشتر بچ جائیں گے اور ایران چند ماہ میں ایٹم بم بنالے گا۔ جس سے صورت حال مزید سنگین ہوجائے گی۔

ایران سے باہر کی بات کی جائے تو اس کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ اور اس کے ذیلی گروہ لبنان، یمن، شام اور عراق میں بہت تربیت یافتہ، مضبوط اور پوری طرح مسلح ہیں۔ یوں کسی براہِ راست جنگ کی صورت میں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خطے کے دوسرے امریکی اتحادیوں کے لئے نئی مشکلات اور عذاب ابھریں گے۔ ان کو شدید نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔

لیکن سب سے بڑھ کے عالمی تجارت میں تہلکہ مچ جائے گا۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گے۔ مثلاً پاکستان میں جو حالات چل رہے ہیں‘ جنگ کی صورت میں شاید پٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک ہزار روپے یا اس سے بھی اوپر پہنچ جائے۔ سرمایہ دارانہ معیشتوں کی اپنی حالت پہلے ہی پتلی ہے۔ بیشتر معیشتیں ویسے ہی منہدم ہو جائیں گی۔ پوری دنیا میں کہرام مچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر حکمران اس جنگ کے امکانات سے خوفزدہ ہیں اور دونوں اطراف کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جتنا بڑبولا ہے اس سے کہیں زیادہ عیار بھی ہے۔وہ بڑھک بازی زیادہ کرتا ہے اور ڈرا دھمکا کے کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ غور کیا جائے اپنے قومی سلامتی کے موجودہ مشیر جان بولٹن ( جو خبط کی حد تک جنگی جنونی ہے) اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو ( جو امریکی سامراج کے بے حد طاقتور ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے)کو اس نے دباﺅ ڈالنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ کچھ ہفتے قبل تک وینزویلا پر امریکی حملہ ناگزیر معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن جب ٹرمپ کو اس کے مضمرات نظر آنے لگے تو اس نے بیان بازی تو جاری رکھوائی لیکن حملہ کرنے سے گریز کیا۔ اب وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ وہی مادورو ہے جسے ٹرمپ نے خونی درندہ، آمر اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازا تھا۔

اس سے پیشتر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کیساتھ بھی ٹرمپ کی شدید لفظی گولہ باری ہوتی رہی ہے۔ کم جونگ نے ٹرمپ کو پاگل اور خر دماغ اور ٹرمپ نے اسے ’راکٹ مین‘ قرار دیا تھا۔ یہی محسوس ہوتا تھا کہ بس اب شمالی کوریا پر حملہ ہوا کہ ہوا۔ فاکس نیوز جیسے دائیں بازو کے میڈیا ہاﺅس تو رات کو تقریباً جنگ کروا کے سوتے تھے۔ پھر کِم اور ٹرمپ کی ”دوستی“ ہو گئی۔ دو ملاقاتیں ہوئیں جن کی ناکامی کے باوجود پیار محبت کے سندیسے اور بیانات جاری ہیں۔

کِم جونگ کےساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے وقت ہی ایرانی صدر روحانی کیساتھ بھی ایسی کسی ملاقات کی قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں۔ لیکن ایران کے ساتھ امریکہ کے اپنے مفادات کے ٹکراﺅ کے ساتھ ساتھ اس کے علاقائی حواریوں کی مداخلت بھی صورتحال کو پیچیدہ کر دیتی ہے۔ بعض معاملات میں امریکہ سے زیادہ اسرائیل اور سعودی عرب کو ایرانی پالیسیوں سے مسئلہ ہے۔ پچھلے ہفتے خلیج فارس میں چار سعودی اور اماراتی آئیل ٹینکروں پر ’پراسرار حملہ‘ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی ریاستیں اور ان کی پراکسیاں موجود ہیں جو اشتعال کے ذریعے اس تصادم کو بھڑکا نا چاہتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ امریکہ کی فوجی طاقت ایران سے بہت بڑی، جدید اور سفاک ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ 1988ءمیں پہلی خلیجی جنگ کے دوران بھی ایران اور امریکہ کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی جس کو امریکیوں نے ’آپریشن پریئنگ مینٹس‘ کا نام دیا تھا۔ اس کی وجہ ایک امریکی بحری جنگی جہاز کا ایران کی بچھائی سمندری بارودی سرنگ سے ٹکرا کے ڈوبنا تھا۔ جواب میں امریکیوں نے بھی ایران کے دو چھوٹے بحری جہاز تباہ کر دئیے تھے۔ اسی عرصے میں امریکی بیڑے نے ’غلطی سے‘ ایک مسافر ایرانی جہاز کو بھی مار گرایا تھا جس میں 290 افراد (بشمول 66 بچے) بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اتنی شدید اشتعال انگیزیوں کے باوجود دونوں ممالک کے حکمرانوں نے اس خونی جھڑپ کوایک مکمل جنگ میں بدلنے سے روکا تھا اور دونوں اطراف نے ہی پسپائی اختیار کر لی تھی۔

آج ایرانی فوج طاقت کہیں زیادہ ہے۔ ایران کے پاس پورے مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔ پچھلے ہفتے ڈرون حملوں اور میزائلو ںسے سعودی تیل کی پائپ لائینوں اور ذخائر پر یمن سے جو حملے ہوئے ہیں ان کا الزام بھی سعودی عرب نے ایران پر دھر اہے۔ لیکن سعودی نائب وزیر خارجہ کا بیان بڑا ذومعنی ہے: ”سعودی عرب خطے میں نہ جنگ چاہتا ہے نہ اس کی کوشش کرے گا… لیکن اگر دوسرا فریق جنگ کا طریقہ اپناتا ہے تو اس کا جواب بھرپور عزم اور طاقت سے دیا جائے گا۔“

پاکستان پر بھی اس تناﺅ کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو کھلے تصادم کی صورت میں مزید سنگین ہوجائیں گے۔ ۔ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضوں، جن کے لئے امریکی رضامندی ناگزیر ہے، کی مجبوری ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب سے ”برادرانہ تعلقات“ ہیں اور پاکستانی جرنیل راحیل شریف کا ’سعودی اتحادی‘ کا کمانڈر ہونا پاکستان کو ایران دشمن الحاق کا حصہ بنا دیتا ہے۔ لیکن پھر ایران کیساتھ بھی سینکڑوں میل لمبی سرحد ہے اور بہت سے تذویراتی، جغرافیائی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ اس سے زیادہ خارجہ پالیسی کا بلنڈر کیا ہوسکتا ہے جو ان حکمرانوں نے پاکستان کے عوام پر نازل کیا ہے۔

لیکن یہ جنگ ہو نہ ہو‘ بحران ختم ہونے والا نہیں ۔ خلیج فارس، جہاں سے دنیا کے 34 فیصد تیل اور 38 فیصد گیس کی تجارت ہوتی ہے، کا عدم استحکام پہلے سے بھی بڑھ جائے گا۔ ان عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں کے تضادات بار بار بھڑکیں گے۔
امریکہ ہو یا ایران‘ ان تمام ممالک میں جو سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اس کا بحران ان کے حکمرانوں کو ایسی خارجی مہم جوئیوں پہ اکساتا ہے۔ لیکن ایک بحران سے نکلنے کے یہ راستے پہلے سے بڑے بحرانات کو جنم دیتے ہیں۔

ایران امریکہ تنازعہ اب تقریباً آدھی صدی پر انا ہوچکا ہے۔ حل ہونے کی بجائے یہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ان ممالک کے حکمران طبقات کی لڑائی ہے۔ اور اپنی ہر لڑائی کی طرح اس تنازعے کا ایندھن بھی یہ عام لوگوں کو بناتے ہیں۔
امریکہ میں دہائیوں بعد سرمایہ داری کے خلاف نئی تحریکیں گزشتہ دس سالوں کے

دوران ابھر رہی ہیں۔ 2011ءمیں آکوپائی وال سٹریٹ تحریک ابھری تھی۔ اب برنی سینڈرز ’جمہوری سوشلزم‘ کے نعرے کی بنیاد پر کروڑوں لوگوں میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ایران میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے پاس جرات مندانہ بغاوتوں کی انقلابی میراث ہے۔ وہاں ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی تحریکیں ملائیت کے معاشی و ریاستی جبر کے خلاف ابھر چکی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں محلاتی سازشیں تیز تر ہو چکی ہیں (جو دھماکے خیز انداز سے سارے منظر نامے کو بدل سکتی ہیں) اور سماجی بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔

سوڈان اور الجزائر کی حالیہ تحریکیں پورے خطے کے حکمرانوں کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک اِس نظام کے حکمرانوں کی قومی جنگیں ہیں جو مزید بربادیاں ہی لا سکتی ہیں۔ ایک طبقاتی جنگ ہے جو محنت کشوں اور نوجوانوں کو لڑ کے اِن بربادیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔