فاروق سلہریا
ذیل میں دی گئی تصویر میں نے ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پہ واقع ڈائیو بس ٹرمینل پہ اتاری تھی۔ یہ ایک عام سا منظر ہے جو تعلیمی اداروں سمیت ہمارے ملک کے اکثر پبلک مقامات پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پانی کے کولر پر ایک گلاس پڑا ہو گا۔ اس گلاس سے سینکڑوں یا شاید ہزاروں لوگ پانی پئیں گے۔ اس سے کہیں زیادہ پی چکے ہوں گے۔
یہ چیز گھروں، محفلوں، دعوتوں اور سیاسی اجلاسوں وغیرہ میں بھی نظر آئے گی۔ اور تو اور ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں بھی آپ دیکھیں گے کہ مریض اور ان کے لواحقین ایک ہی گلاس سے پانی پئے جا رہے ہیں۔ ایسی جگہوں پہ آپ مشاہدہ کریں گے کہ اکثر دیواریں مقدس تحریروں سے مزین ہوں گی مگر واٹر کولر پر وہی ایک گلاس!
میرے خیال میں یہ مسئلہ تین سطح پر ہے۔
ایک طرف تو یہ پاکستانی سرمایہ داری کی انتہائی اخلاقی گراوٹ کا اظہار ہے۔ کروڑوں روپے کمانے والے نجی ہسپتال اور کلینک یا اربوں روپے بنانے والی بس سروسز فلاحِ عامہ پہ چند روپے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈائیو بس سروس آپ کو دورانِ سفر تو پلاسٹک کا گلاس (جو ماحول کے لئے زہر ِ قاتل ہے نیز منافع خوری کا ایک اور اظہار ہے) فراہم کرتی ہے مگر اپنے ٹرمینلوں پر یہ کمپنی ایسا کوئی تکلف برتنے کو تیار نہیں ہے۔
دوسرا پہلو ہے حکومتی نا اہلی اور بے حسی کا ہے۔ عوام کے مسائل سے لا تعلق ریاست کو ان مسئلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کروڑوں لوگوں کے لئے وبالِ جان بن رہے ہیں۔
اس مسئلے کا تیسرا اور زیادہ اہم پہلو ہے عوامی شعور۔ ہمیں نہ بتایا جاتا کہ جوٹھے برتن سے پرہیز کرو‘ نہ جوٹھے برتن میں کھانے سے منع کیا جاتا ہے۔ بلکہ ایک برتن میں کھانا دوستی اور قربت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اُلٹا ہمیں بچپن میں کھانے کو پاک کرنے کے مخصوص مذہبی کلمات اور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔
بہت سے بظاہر پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کے نزدیک بھی صفائی کا ایشو توہماتی ہے نہ کہ سائنسی۔ ہمیں اور ہماری چیزوں کو ”پاک“ ہونا چاہئے‘ صاف بھلے ہوں نہ ہوں۔
یہ مجموعی طور پر سماجی پسماندگی کا مسئلہ ہے۔
فی الوقت کیا جا سکتا ہے؟ آسان سا حل ہے۔ جوٹھے گلاس میں خود بھی پانی مت پئیں‘ دوسروں کو بھی پینے سے منع کریں۔ اگر آپ سفر کر رہے ہیں تو اپنا گلاس یا بوتل وغیرہ ہمراہ رکھیں۔ بچوں کو تو بالکل بھی پبلک مقامات پہ جوٹھے گلاس سے پانی مت پینے دیں۔ جس قسم کی موذی بیماریاں (اور جس بڑے پیمانے پر) آج موجود ہیں‘جوٹھے گلاس میں پینا یا جوٹھے برتن میں کھانا اگر موت کو دعوت دینے والی نہیں تو کم از کم کسی ایسی موذی بیماری کو دعوت دینے والی بات ضرور ہے جو مالی لحاظ سے بھی صحت کی نجکاری کے اس دور میں کافی مہنگی پڑ سکتی ہے۔
اس سارے مسئلے کا ایک ثقافتی پہلو بھی ہے۔ صاف برتن میں کھانا پینا نفاست کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ہم محنت کشوں کو صرف روٹی نہیں گلاب کے پھول بھی چاہئیں۔
ہمارا ”روزمرہ کے مسائل“ کا سلسلہ بالکل مختصر مضامین پر مشتمل ہو گا جس میں آپ بھی کسی سماجی مسئلے اور اس کی وجوہات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحریریں یا آرا ہمیں یہاں ارسال کریں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔