سرمد خواجہ
اگست میں پی ٹی آئی حکومت کے دو سال مکمل ہو گئے۔ دو سال کا عرصہ یہ جاننے کے لئے کافی ہے کہ اس حکومت کے دور میں خدمات اور پیدوار کے شعبوں میں لوگوں کی بنیادی کارکردگی کیسی رہی۔ دو سال کے بعد یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کا معاشی فائدہ کن لوگوں اور حلقوں نے اٹھایا۔ ان دو سالوں بارے سرکاری اعداد و شمار بھی دستیاب ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں جی ڈی پی (جو پیداوار کا پیمانہ ہوتا ہے اور حکومتیں جی ڈی پی بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں) میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔ دوسرے سال یہ اضافہ 0.5 فیصد رہا۔ اس کے بر عکس پی ٹی آئی حکومت بننے سے پہلے والے پانچ سالوں میں یہ اضافہ پانچ فیصد تک رہا۔ آبادی میں 1.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو حکومت لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں لا سکی۔ درحقیقت جی ڈی پی میں اس قدر کم اضافے کی وجہ سے فی کس آمدن کم ہو گئی۔ زرعی پیداوار میں زبردست کمی (بڑی فصلوں میں 7فیصد تک کمی) اور صنعتی پیداوار میں کمی (بڑی صنعتوں کی پیداوار 8 فیصد تک کم ہوئی) کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیزیں منڈی سے غائب ہو گئیں۔ ایک طرف قلت کا سامنا تھا تو دوسری طرف قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یوں محنت کشوں اور غریبوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔
بلا شبہ معیشت نے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں اس طرح ترقی نہیں کی جس طرح نواز شریف کے دور میں ہوئی مگر اس کے باوجود کرونی (Crony) سرمایہ دار نے خوب مال بنایا مگر اس لوٹ مار کی قیمت محنت کشوں کو چکانی پڑی۔ کرونی سرمایہ داروں کا منافع بلاشبہ ان دو سالوں میں خوب بڑھا۔ مثال کے طور پر اینگرو کارپوریشن نے 53.8 ارب کا منافع کمایا، داؤد لارنس پور نے 4.1 ارب، داؤد ہرکولیس 62 ارب اور پانچ بینکوں نے مشترکہ طور پر 461 ارب روپے کا منافع کمایا۔
حکومت کے اقتصادی فیصلے تباہ کن تھے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ پہلے گندم برآمد کرنے کی اجازت دی گئی، جب گندم منڈی سے غائب ہو گئی تو گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ فیصلے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھے۔
پی ٹی آئی حکومت کے ’معاشی جادوگر‘ اسد عمر کی کپتانی میں دو منی بجٹ پیش کئے گئے، ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی گئی۔ اسی طرح چینی، ٹیکسٹائل اور آٹو انڈسٹری کے علاوہ گندم اور چینی کے ایکسپورٹرز اور رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایڈہاک اقدامات اٹھائے گئے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے مارکیٹ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو گئی۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے چلے گئے جبکہ روپے کی قدر میں کمی ہوتی چلی گئی۔ ملکی خزانے کو کم از کم 743 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا (یہ نقصان شرح نمو میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا)۔
نیب نے اپنے قیام سے اب تک جتنی وصولیاں کی ہیں، یہ نقصان اس سے دوگنا تھا۔ اس بات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف نعرہ بازی کتنی کھوکھلی ہے جبکہ نالائقی سے پہنچنے والا نقصان کہیں زیادہ ہے۔
پی ٹی آئی دورِحکومت کا سب سے پریشان کن معاشی پہلو عوامی بہبود پر خرچ ہونے والے بجٹ میں 20 فیصد کٹوتی ہے۔ اس کٹوتی کا مطلب ہے نئی سڑکیں، سکول، پل، فیکٹریاں اور مشینری دستیاب نہیں ہوں گے۔ یہ سب ایک تاریک مستقبل کی نشانیاں ہیں۔مزید بچت کے لئے اس حکومت کا اگلا وار محنت کش طبقے پر کیا گیا۔ سالانہ دس فیصد مہنگائی بڑھی۔ اس مہنگائی کے نتیجے میں محنت کشوں کی قوت خرید میں 20 فیصد کمی ہوئی۔
یوں لاکھوں لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے 12.5 ارب ڈالر کے قرضے لئے۔ اس دور میں غیر ملکی قرضے 87.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔
مگر یہ سب پیسہ گیا کہاں؟
کچھ تو لنگر خانوں پر خرچ ہو ا جہاں چند سو بھوکے افراد کھانا کھا سکیں گے مگر سٹاک ہولم پیس اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے مطابق اس رقم کا بڑا حصہ یعنی 21.8 ارب دفاع پر خرچ ہوا جبکہ اس میں سے 1.3 ارب اسلحہ درآمد کرنے پر خرچ ہوئے۔
دریں اثنا، ملک کو درپیش دو سب سے بڑے مسائل، بھوک اور فوڈ سکیورٹی، پر یا تو توجہ ہی نہیں دی گئی اور جب تھوڑی توجہ اس جانب گئی بھی تو بد دلی کے ساتھ اقدامات کئے گئے۔ ان اقدامات کا ایک نتیجہ تو حال ہی میں شروع کیا گیا احساس نشو و نما پروگرام تھا جس کے پاس مناسب فنڈ ہی موجود نہیں۔ اسی طرح پاکستان نیوٹریشن کوآرڈی نیشن کونسل کا پہلا اجلاس چند روز پہلے ہی منعقد کیا جا سکا۔
اس میں حیرت کیسی اگر لوگوں کی اکثریت کم خوراکی کا شکار ہے۔ 40 فیصد بچوں کی نشونما معمول کے مطابق نہیں ہو رہی۔ 8 میں سے 1 لڑکی جبکہ 5 مین سے 1 لڑکے کا وزن کم ہے۔ لڑکیوں کی نصف تعداد خون کی کمی کا شکار ہے۔ 14 فیصد خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر میں ہیں، کم خوراکی کا شکار ہیں۔ 23 اضلاع ایسے ہیں جہاں دہی علاقوں میں غریب لوگوں کی تعداد 75 فیصد ہے۔ 28 اضلاع میں یہ تعداد 60 فیصد ہے۔ 5 میں سے 3 مزدوروں کو بنیادی تنخواہ بھی نہیں ملتی۔
ان مزدوروں میں وہ کم عمر لڑکیاں بھی شامل ہیں جنہیں سکول جانا چاہئے مگر غربت کے ہاتھوں مجبور وہ گنے کے کھیت میں کام کرتی ہیں یا کپاس چنتی ہیں۔ ان کی روزانہ اجرت سو روپے تک ہے۔ فیصل آباد میں گھروں میں دستانے بنانی والی خواتین کو فی جوڑا 4 روپے اجرت ملتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو چند دن پہلے اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھی تھیں، ان کی تنخواہ 25ہزار ماہانہ ہے۔ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولوں میں اساتذہ کو ماہانہ 8 ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ وہ بھی اسلام آباد دھرنے میں شریک تھے۔
اس میں شک نہیں کہ حکومتی فیصلوں کی وجہ سے غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا۔ حکومت یہ فیصلہ بھی لے سکتی تھی کہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دولت کی تقسیم پر توجہ دیتی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھاتی، فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی اور ٹریڈ یونین کو مضبوط کرتی تا کہ مالکان تنخواہوں میں کمی نہ کر سکتے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس کے بالکل الٹ کیا کیونکہ غربت کا خاتمہ، شرح خواندگی میں اضافہ یا بچوں میں کم خوراکی کا مسئلہ حل کرنا پی ٹی آئی حکومت کی ترجیح تھی ہی نہیں۔
اس کی ترجیح تو امیروں اور کارپوریشنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔ بھوک اور بے روزگاری وہ ہتھیار ہیں جن کی مدد سے مزدوروں کو ایک دوسرے کے’مقابلے‘ میں کھڑا کر کے تنخواہیں کم رکھی جاتی ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت ایک اولیگارکی (Oligarchy) ہے (یعنی ایک گروہ کا کسی ملک پر قابض ہونا) جو ماس میڈیا کی مدد سے سٹیٹس کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اور عسکری محکمہ ایک ہی پیج پر ہیں۔ عسکری محکمے کا تو مقصد ہی مزدور طبقے کو ڈرانا دھمکانا ہے۔