قیصرعباس
سنا تھا زرد پھولوں پر
دھنک رنگوں کی
ساری تتلیاں
ہرروز محو رقص ہوتی ہیں
سو میں نے بیج بو کر
پھول کے پودے اگائے
آبیاری کی…
پھول کھل آئے تو
ان کی بھینی خوشبو
دور تک پھیلی ہوئی تھی،
مہینے ہو چلے تھے
پر کوئی تتلی نہیں آئی تھی اب تک
دھنک رنگوں کی ساری تتلیاں
جانے کہاں تھیں
مگر پھر ایک دن دیکھا
ہزاروں نیم مردہ تتلیاں
پھولوں کےقدموں میں
پڑی دم توڑتی ہیں
گوگل سرچ کے سب لنک
میں نے چھان ڈالے
اس تجسس میں کہ
آخر ماجرا کیاہے
مگر جب غور سے دیکھا
تو بیجوں کے سنہرے
پیکٹوں پر ایک کونے میں
بہت باریک حرفوں میں لکھا تھا
’’جینیٹک آلٹرنگ سے
ہم نے ان پھولوں کے
سارے رنگ اور خوشبو نکھارے ہیں
مگرپھولوں کا ہر اک لمس
اب ان تتلیوں کا زہر قاتل ہے
انہِیں پھولوں سے سوگز دور رکھئے‘‘
مرے سفاک ہاتھوں سے
دھنک رنگوں کی ساری تتلیوں کا خوں
ابھی ا تر ا نہیں ہے!
ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔