خبریں/تبصرے

لندن: خاتون کے اغوا و قتل کیخلاف احتجاج کرنیوالے مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) برطانیہ میں خاتون کے اغوا اور قتل کے الزام میں پولیس افسر کی گرفتاری کے بعد لندن میں ہزاروں افراد نے پولیس گردی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے باوجود کثیر تعداد میں خواتین نے احتجاج میں شرکت کی، پولیس کی جانب سے مظاہرین کو روکے جانے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں، پولیس نے احتجاج میں شامل خواتین سمیت کم از کم 6 افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق بیشتر خواتین پر مشتمل تقریباً ایک ہزار سے زائد مظاہرین سارہ ایوراڈ کی تعزیت کے لیے جمع ہوئے اور ساتھ ہی انہوں نے عدم تحفظ کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ ’پولیس کو اپنے فعل پر شرمندہ ہونا چاہیے‘۔

بیشتر خواتین نے تنہا گھر سے باہر نکلنے پر عدم تحفظ کا اظہار کیا۔ مظاہرین کی جانب سے شدید نعرے بازی کے بعد پولیس نے مداخلت کی اور متعدد خواتین کو کلفام کامن سے گھسیٹتے ہوئے دور لے گئی۔ واضح رہے کہ رواں ماہ 3 مارچ کی شام کو 33 سالہ سارہ ایوراڈ جنوبی لندن میں اپنے ایک دوست کے اپارٹمنٹ سے گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئی تھیں۔

مقتولہ کو جنوب مغربی لندن میں کلفام کامن کے مقام پر آخری بار دیکھا گیا تھا۔ ہزاروں افراد نے کلفام کامن کے مقام پر سارہ ایوراڈ سے اظہار تعزیت کے لیے موم بتیاں روشن کیں اور پھولوں کے گلدستے رکھے۔ 48 سالہ برطانوی پولیس افسر وین کوزنز پر سارہ ایورارڈ کو اغوا اور قتل کرنے کا الزام ہے۔

میٹرو پولیٹن پولیس نے واقعے پر برہمی اور صدمے کا اظہار کیا کہ ان کا ایک افسر جرم کے الزام میں گرفتار ہے۔ پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ”کوزنز نے 2018ء میں فورس میں شمولیت اختیار کی اور حال ہی میں پارلیمنٹ اور سفارتخانے کی بطور سکیورٹی افسر کام کیا۔“

سارہ ایورارڈ کی لاش لندن کے جنوب مشرق میں کینٹ کے وڈ لینڈ کے ایک علاقے سے برآمد ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں نے سارا کی یاد گاری پروگرام طے کیے لیکن ہائی کورٹ کے ایک جج نے کہا کہ کورونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے اس طرح کا اجتماع غیر قانونی ہو گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts