راولا کوٹ(نامہ نگار)وزارت اطلاعات کی جانب سے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے تیار کردہ آرڈیننس کا مسودہ منظر عام پر آیا ہے۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے بننے والے اس نئے قانون کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)نے مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ”نواز شریف حکومت میں ہی یہ منصوبہ شروع ہو گیا تھا کہ میڈیا کو کنٹرول میں لیا جائے۔ نواز دور میں پہلے پرنٹ میڈیا کی ریگولیٹر اتھارٹی بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی، پھر الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا انضمام کر کے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن صحافیوں کی مخالفت پر حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ اب نیا آرڈیننس ایک طرح سے میڈیا مارشل لاء ہے، یہ ہائبرڈ وار کا حصہ ہے۔ اس آرڈیننس پر خفیہ طریقہ سے کام کیا گیا اور تمام صحافیوں سے خفیہ ہی رکھا گیا۔ اس آرڈیننس کے نفاذ کے ذریعے میانمار جیسی صورتحال ہو گی، یا پھر چین جیسا ماڈل اپنایا جائے گا جس میں سب کچھ کنٹرول میں ہوگا۔“
ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ ”موجودہ حکومت نے آتے ہی ایک آرڈیننس کے تحت الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پرنٹ میڈیا، ڈائریکٹر جنرل پریس، اخبارات کے ڈیکلریشن کا نظام وغیرہ سب کچھ شامل کرتے ہوئے بھاری جرمانے،میڈیا کورٹس وغیرہ بنانے کا آئیڈیا پیش کیا تھا، جو صحافیوں کی مخالفت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ اب فواد چوہدری ایک نیا آئیڈیا لیکر آگئے ہیں جو دراصل طاقت کے اصل مراکز کا پیش کردہ آئیڈیا ہی ہے۔
نئے آرڈیننس کے مسودے کے چیدہ چیدہ نکات کی وضاحت کرتے ہوئے ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ ”اس آرڈیننس کے تحت لائسنس، ڈیکلریشن وغیرہ پی ایم ڈی اے جاری کرے گا، لائسنس کا سکوپ بڑھا دیا گیا ہے، سارے سوشل میڈیا پلیٹ فارم لائسنس لیکر چلانے پڑیں گے، بھاری لائسنس فیسیں رکھی گئی ہیں، اس طرح بیروزگار ہونے والے صحافیوں کا متبادل روزگار چھینا جائیگا۔ ڈیکلریشن پہلے ڈپٹی کمشنر جاری کرتا تھا اور صوبائی سبجیکٹ تھا، اب صوبوں سے یہ اختیار چھین کر پی ایم ڈی اے کو دے دیا جائیگا، ڈیکلریشن کی ہر سال تجدید کروانی ہو گی، ہر سال این او سی بھی جاری ہوگا۔ پی ایم ڈی اے کا سربراہ وزارت اطلاعات کا ایک 21یا 22گریڈ کا افسر ہوگا۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پی ایم ڈی اے کے نفاذ کے بعد تمام قوانین ختم ہو جائیں گے، نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ، موشن پکچر ایکٹ، پرنٹ پریس کارپوریشن ایکٹ، ایمپلائز ویجز ایکٹ بھی ختم ہو جائیگا۔ ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں میڈیا ٹربیونل بنائی جائیگی، جس کا انتخاب پی ایم ڈی اے کا سربراہ کریگا، اصل میں انتخاب کہاں سے ہوگا یہ سب جانتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں میڈیا کیلئے نیب کورٹس بنائی جا رہی ہیں، جس کو پکڑنا ہو اس کو میڈیا کورٹس میں ڈال دو۔ 3سال کی سزا اور اڑھائی کروڑ تک جرمانے عائد کرنے کا اختیار ہوگا، جرمانے مسلسل بڑھائے جانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”کوئی بھی قانون یا آرڈیننس جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اور 19اے کے متصادم یا خلاف ہو وہ جاری نہیں ہو سکتا، لیکن یہاں خلاف آئین قوانین بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سب سے بڑی بات جو اس آرڈیننس میں کی گئی ہے وہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یو ٹیوب، فیس بک وغیرہ کو لائسنس لینے کا پابند کرنا اور انہیں پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کا پابند کیا جانا ہے۔ یہ کمپنیاں پہلے بھی پاکستانی قوانین کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا ریگولیشنز بھی جاری کرنے کی کوشش کی گئی جن کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ آرڈیننس میں صحافیوں سے فیئر ٹرائل کا حق بھی ایک طرح سے چھینا جا رہا ہے۔ جو سزائیں ٹربیونل سے ہونگی ان کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے جہاں غریب آدمی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔“
ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ ”تمام لوگوں، ترقی پسند اور مین سٹریم پارٹیوں کو آن بورڈ لیکر اس کے خلاف ایک وسیع مہم چلائیں گے، یہ کالا قانون ہے، اس سے قبل جتنے بھی قوانین آئے،یہ ان سب میں بھیانک قانون ہے۔ اس کی پوری طاقت سے مخالفت کرینگے، چاہیں گے کہ دیگر صحافتی اور مالکان کی تنظیمیں بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں تاکہ ملکر قومی میڈیا بحران سے نکلنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کے خلاف جدوجہد کرنی ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد کا مقصد ان قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنا ہے جو اپنے آپ کو بہت طاقتور اور توانا سمجھتی ہیں۔ اگر ہم متحد اور پر عزم ہوئے تو ہم اس سے پہلے بھی ڈکٹیٹرز کو شکست دے چکے ہیں،ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے“۔