طارق علی
1971ء میں ملک ٹوٹنے کے کئی سال بعد میں نے ”کین پاکستان سروائیو“ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب کو سرِ عام تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور آمروقت جنرل ضیا الحق نے، جو ملک کی تاریخ کا بد ترین آمر ثابت ہوا، اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔ ضیا کی نگرانی میں ملک کی بھر پور’’اسلامائزیشن“ کا عمل ہوا، ملک کی سیاسی ثقافت کو وحشت ناک بنایا گیا جبکہ مزاحمت کرنے والوں کو سرِ عام کوڑے لگائے گئے۔ ضیا کی بر بریت سے بھرپور سیاسی وراثت کسی انمٹ داغ کی طرح موجود ہے۔ میری کتاب کے بلاحقوقِ اشاعت کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور مجھے بعد ازاں پتہ چلا کہ اس کتاب کو کئی جرنیلوں نے دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ اس کتاب میں میری دلیل یہ تھی کہ اگر ریاست نے اپنے اطوار نہ بدلے تو باقی چھوٹے صوبے بھی علیحدہ ہو سکتے ہیں اور آخر میں گھر کے تیس مار خان ایسا پنجاب ہی رہ جائے گا۔ بہت سے وہ لوگ جنہوں نے مجھ پر غداری اور انحراف کا الزام لگایا، وہ بھی اب یہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب پچھتانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس ملک کو کچھ نہیں ہو گا۔ بقائے پاکستان کی ضمانت عارفانہ ”نظریہ پاکستان“ یا مذہب نہیں بلکہ دو دیگر عناصر ہیں: اس کی ایٹمی طاقت اور واشنگٹن سے ملنے والی حمایت۔
اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پاکستان کی ہلکی پھلکی سی بلقانائزیشن کر دی جائے…مثلاً یہ کہ صوبہ سرحد کو علیحدہ کر کے ناٹو کے مقبوضہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے…توایسے میں چین محسوس کرے گا کہ اسے اس ملک کی بقا کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔ ملک کو درپیش بنیادی تضادات پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں: ہزاروں دیہات اور کچی آبادیاں آج بھی بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ لکڑی کا ہل اور ایٹمی انبار ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہ ہے اصل سکینڈل۔
مندرجہ بالا اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈوئیل‘ (2008ء) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘ کے عنوان سے کیا۔