تہران (جدوجہد رپورٹ) ایران کے دارالحکومت کی مرکزی جامعہ تہران یونیورسٹی کی گریجویٹ طالبات کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ اپنی گریجویشن مکمل ہونے کے موقع پر طالبات نے جامعہ کے گیٹ کے باہر حجاب اتار کر یہ تصویر بنوائی ہے۔
صحافی فرناز فسیحی نے مذکورہ تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ایک علامتی مقام پر اس علامتی عمل نے جبری حجاب قوانین سے متعلق ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔“
یاد رہے کہ ایران میں 1979ء کو برسراقتدار آنے والی شیعہ اسلامی حکومت نے عورتوں پر حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ خواتین کو عوامی مقامات پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے اور سر پر سکارف پہننے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ 1983ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ جو خاتون عوامی مقامات پر اپنے بال نہیں ڈھانپتی اسے 74 کوڑوں کی سزا دی جائیگی، بعد ازاں بے پردہ خواتین کیلئے 60 دن قید کی سزا کا بھی اطلاق کر دیا گیا تھا۔
تاہم گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں ایرانی خواتین نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ایرانی حکام نے احتجاج کرنے والی خواتین کے خلاف سخت گیر کارروائیاں بھی کی ہیں اور سیکڑوں خواتین کو حجاب قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے پر سزائی بھی دی گئی ہیں۔ 3 سال قبل 2018ء میں بھی لازمی حجاب کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کم از کم 29 خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا۔