لاہور (جدوجہد مانیٹرنگ) پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ 3 سال کے دوران پاکستان کے 2 شہروں کراچی اور اسلام آباد میں تعمیر ہونے والی دو بلند و بالا عمارتوں سے متعلق فیصلے سنائے ہیں، تاہم یہ فیصلے اپنی نوعیت میں بالکل مختلف رہے ہیں۔ گرانڈ حیات ہوٹل کو ریگولرائز کرنے اور جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ دیا گیا، جبکہ نسلہ ٹاور کومنہدم کرتے ہوئے متاثرین کو اراضی فروخت کر کے رقوم ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
معروف صحافی ’عمر چیمہ‘ نے ’دی نیوز‘ میں اس حوالے سے تفصیلی مضمون میں لکھا ہے کہ جنوری 2019ء میں چیف جسٹس وقت جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گرانڈ حیات ہوٹل کی لیز بحال کر دی تھی، جسے سی ڈی اے نے قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کر دیا تھا۔ سی ڈی اے کا موقف تھا کہ ’بی این پی‘ کو گرانڈ حیات ہوٹل کی تعمیر کیلئے پلاٹ دیا گیا تھا لیکن کمپنی نے 40 منزلہ لگژری فلیٹس تعمیر کر دیئے اور گرین ایریا کو رہائشی اور کمرشل علاقے میں تبدیل کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کمپنی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دوست عبدالحفیظ پاشا کی ملکیت ہے اور تیار کردہ فلیٹس خریدنے والوں میں وزیر اعظم عمران خان، سابق چیف جسٹس ناصر الملک اور دیگر اعلیٰ شخصیات بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ قبل سپریم کورٹ نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے لیز بحال کرنے کا حکم دیااور کمپنی پر 18 ارب روپے جرمانہ عائد کر کے ریگولرائز کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ بھی کہا کہ جرمانے کی رقم سے متعلق انہیں خواب آیا تھا۔ مختصر فیصلہ سنائے 3 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک تفصیلی فیصلہ نہیں جاری کیا گیا۔
3 سال بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں 15 منزلہ نسلہ ٹاور گرانے کا حکم دیا۔ ٹاور کو تجاوزات میں قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ٹاور کی تعمیر کی وجہ سے سروس روڈ بھی بند ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے پرتنقید کی جا رہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر نسلہ ٹاور کیس میں بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین بھی شامل ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن گرانڈ حیات ہوٹل کی لیز بحال کرنے والے بنچ کا بھی حصہ تھے۔ اس وقت سی ڈی اے نے بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض بھی کیا تھا کہ وہ ماضی میں بی این پی کے وکیل رہ چکے ہیں۔ تاہم چیف جسٹس نے یہ اعتراض مسترد کر دیا تھا۔
اس وقت جسٹس ثاقب نثار نے سی ڈی اے سے سوال کیا تھا کہ 13 سال تک وہ سور ہے تھے؟ اور اب جب دو ٹاور تعمیر ہو چکے ہیں تو ادارہ کہتا ہے کہ یہ عمارت نیشنل پارک ایریا کی حدود میں آتی ہے، جہاں رہائشی اپارٹمنٹ نہیں ہو سکتے؟
جسٹس ثاقب نثار نے یہ سوال بھی کیا کہ سپریم کورٹ کی عمارت اور سیکرٹریٹ بھی اسی ایریا میں آتے ہیں تو کیا ان عمارتوں کو بھی منہدم کر دیں؟ اب لوگوں نے اپارٹمنٹ خرید لئے ہیں، ایسے تو آدھا اسلام آباد غلط تعمیر کیا گیا ہے۔