لاہور (جدوجہد رپورٹ) رکن ِقومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت کا کیس سپریم کورٹ میں ’ڈی لسٹ‘ کرنے کا نوٹس جاری کئے جانے کے بعد جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں کام کرنے والے بنچ نے ہی سماعت کیا اور آج منگل تک کیلئے سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔
صحافی اسد علی طور کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے علی وزیر کا کیس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کام کرنے والے بنچ کے سامنے لگائے جانے کو ایک کلیریکل غلطی قرار دیا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کی سماعت اب یہی بنچ کرے گا جس کی سربراہی جسٹس سردار طارق مسعود کر رہے ہیں اور جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین بنچ اراکین ہیں۔
قبل ازیں پیر کے روز جب علی وزیر کے وکلا اور ساتھی عدالت پہنچے تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ علی وزیر کا کیس ڈی لسٹ کر دیا گیا ہے۔ مبینہ طور پرجسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کیلئے قائم کئے گئے بنچ سے ایک جج علالت کے باعث حاضر نہ ہو سکے، جس کی وجہ سے اچانک اتوار کی رات علی وزیر کا کیس ڈی لسٹ کر دیا گیاتھا۔
علی وزیر کی درخواست ضمانت پر جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہونے والی دوسری سماعت میں سندھ حکومت کے ایڈیشنل پراسیکیورٹر جنرل کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔ جمعہ کے روز ہی علی وزیر کی ضمانت کا کیس جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں کام کرنے والے بنچ سے تبدیل کر کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی کام کرنے والے بنچ کے سامنے لگا دیا گیا تھا۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ یہاں سپریم کورٹ میں بنچ ٹوٹ جائے تو نیا بنچ بنتے بنتے سالوں گزر جاتے ہیں۔ ”ہماری ایک درخواست سپریم کورٹ میں پڑی ہے، کئی سال پہلے بنچ ٹوٹ جانے کے باعث سماعت ملتوی ہوئی تھی، تاحال نیا بنچ نہیں بن سکا ہے۔“
یاد رہے کہ علی وزیر کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں سندھ حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں مقدمہ درج کیا تھا، جس کے بعد 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول حملے کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے بعد پشاور سے علی وزیر کو گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
انسداد دہشتگردی عدالت سے درخواست ضمانت مسترد کئے جانے کے بعد عدالت العالیہ سندھ میں درخواست ضمانت دائر کی گئی تھی۔ عدالت العالیہ نے مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کے بعد 3 ماہ تک فیصلہ محفوظ رکھا اور اس کے بعد درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ رواں سال جون سے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ تقریباً 6 ماہ کے دوران پہلی سماعت کیلئے دو رکنی بنچ قائم کیا گیا، جس نے یہ کہہ کر مقدمہ سننے سے انکار کر دیا کہ دو رکنی بنچ ضمانت کے مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتا۔ نیا بنچ تشکیل دیا گیا تو پراسیکیوٹر کی عدم حاضری کی وجہ سے 2 دن کیلئے سماعت ملتوی کی گئی۔ تاہم اسی روز ہی نیا بنچ قائم کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر تیسری سماعت پیر کو ہونا تھی، لیکن ایک جج کی غیر حاضری کی وجہ سے بنچ ٹوٹ گیا ہے۔
معروف صحافی مطیع اللہ جان سے گفتگو کرتے ہوئے افراسیاب خٹک کا کہنا تھا ”جمعہ کے روز سماعت دو روز کیلئے ملتوی کی گئی تھی، آج پتہ چلا کہ ایک جج تشریف نہیں لائے۔ علی وزیر ایک جنگی قیدی ہے، وہ اس جنگ کا قیدی ہے جو اس غیر اعلانیہ مارشل لا نے جمہوری آوازوں کے خلاف شروع کر رکھی ہے“۔
ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اسے عدلیہ کی آزادی پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کا عملی نمونہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ ”جن لوگوں نے قتل عام کیا، جلاؤ گھیراؤ کیا، ریاست ان کے سامنے سرنڈر کر کے معاہدے کر رہی ہے، علی وزیر نے صرف ایک تقریر کی اور ایک سال سے جیل میں ہے“۔
انکا کہنا تھا کہ ہمیں دیر سے مگر رات کو ہی پتہ چل چکا تھا کہ صبح سماعت نہیں ہو گی۔ ”پھر بھی دل کو مطمئن کرنے کیلئے سپریم کورٹ آ گئے، یہاں کہا گیا کہ رات کو آپ کا کیس ڈی لسٹ ہو گیا تھا۔“
بشریٰ گوہر کا کہنا تھا ”علی وزیر کے ساتھ یہ سلوک کون کر رہا ہے یہ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کیمرہ سیشن میں جب یہ کہا گیا کہ علی وزیر معافی مانگیں تو انہیں رہائی مل سکتی ہے، تو اس وقت کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ آپ کس حیثیت سے یہ بات کر رہے ہیں“۔
انکا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اب کہہ رہی ہے کہ علی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے ہم سے کسی نے نہیں پوچھا، سندھ حکومت یہ باتیں کرنے کی بجائے کیس واپس کیوں نہیں لے لیتی۔ ”سندھ حکومت کیوں سرنڈر ہوئی۔ پارلیمنٹ کو بھی کھڑا ہونا چاہیے، لیکن یہ تو پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کر سکتے“۔
ادھر علی وزیر کی رہائی کیلئے احتجاج کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اتوار کے روز بھی پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام علی وزیر کی گرفتاری اور دیگر مسائل کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق اور بائیں بازو کے کارکنان دنیا کے مختلف ممالک میں علی وزیر کی رہائی کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔