لاہور (جدوجہد رپورٹ) پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) کے زیر اہتمام طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات کے حصول کیلئے احتجاجی دھرنا آج دسویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔
یہ احتجاجی دھرنا پنجاب اسمبلی کے سامنے دن رات جاری رکھا جا رہا ہے۔ شرکا دھرنا کے مطالبات میں طلبہ یونین کی بحالی کے علاوہ فیسوں میں کمی، یونیورسٹی کیمپس سے سکیورٹی فورسز کے انخلا سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں۔
جمعرات کے روز عورت مارچ لاہور کے منتظمین نے طلبہ کے احتجاجی دھرنا کے ساتھ یکجہتی کرنے کیلئے دھرنے کا دورہ کیا۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ کے علاوہ طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور سیاسی و سماجی کارکناں کی ایک بڑی تعداد طلبہ کے ساتھ یکجہتی کرنے کیلئے احتجاجی دھرنا میں شرکت کر چکی ہے۔
پی ایس سی کے زیر اہتمام یہ احتجاجی دھرنا 9 فروری کو پنجاب اسمبلی کے باہر شروع کیا گیا تھا۔ پہلے روز طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کیلئے احتجاج میں دیگر طلبہ تنظیموں کے کارکناں بھی شریک ہوئے تھے۔
طلبہ یونین پر پابندی 1984ء میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں لگائی گئی تھی۔ یہ پابندی 1989ء میں بے نظیر حکومت کے دوران اٹھائی گئی لیکن 1993ء میں سپریم کورٹ نے کیمپس میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔
سندھ اسمبلی نے 12 فروری کو متفقہ طور پر سندھ میں طلبہ یونین بل 2019ء منظور کر لیا ہے، جس کے بعد 38 سال بعد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تاہم ابھی تک طلبہ یونین کے انتخابات کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی ہے۔
احتجاجی دھرنا میں شریک طلبہ کے مطالبات میں یونینوں کی بحالی، داخلہ کے وقت سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کے حلف نامہ کی شرط کا خاتمہ، طلبہ کارڈ پر ٹرانسپورٹ کرایوں میں 50 فیصد رعایت اور خواتین طالبات کی مساوی رکنیت کے ساتھ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے قیام کے مطالبات بھی شامل ہیں۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے تمام طلبہ کارکنوں اور اساتذہ کو رہا کیا جائے، تمام تعلیمی اداروں سے رینجرز اور ایف سی کو باہر نکالا جائے، داخلہ فارم میں تیسری جنس کی کیٹیگری کو بھی شامل کیا جائے، پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی قائم کی جائے اور فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
احتجاج میں شریک طلبہ کے ساتھ تاحال حکومتی سطح پر کسی نے کوئی مذاکرات نہیں کئے ہیں۔ طلبہ یہ عزم کئے ہوئے ہیں کہ جب تک مطالبات منظور نہیں کئے جاتے، احتجاجی دھرنا جاری رکھا جائیگا۔