فاروق سلہریا
14 تا 17 اکتوبر،پورا پنجاب ایک مرتبہ پھر بے چینی و بے یقینی کا شکار تھا۔ پنجاب گروپ آف کالجز کی لاہور میں ایک برانچ کی طالبہ بارے یہ افواہ پھیلی کہ انہیں کالج کے سکیورٹی گارڈ نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔اس افواہ کے بعد، مشتعل طلبہ نے پہلے دن لاہور اور بعض دیگر شہروں میں عمارتوں کو آگ لگائی۔ اگلے روز،گجرات میں ایک سکیورٹی گارڈ طلبہ کے ہاتھوں جان سے مارا گیا۔ پولیس نے دل کھول کر طلبہ پر لاٹھیاں برسائیں۔ راولپنڈی میں ڈھائی سو طلبہ گرفتار ہوئے۔ایک دن کے لئے پورے صوبے میں تمام تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔
دریں اثنا، مریم نواز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت یہ ثابت کرنے پر لگی رہی کہ طالبہ کے ساتھ کوئی واقعہ ہی پیش نہیں آیا۔ تحریکِ انصاف جو جنم جنم سے موقع پرستی اور شرم سے عاری سیاست کی قائل ہے (ان کا بانی بطور وزیر اعظم یہ بیان دیتا تھا کہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے،ریپ عورتوں کے نازیبا لباس کی وجہ سے ہوتا ہے)عورتوں کے حقوق کی چیمپئن بن کر سامنے آئی۔
اب اس واقعہ کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ کوئی بھی پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ پنجاب کالج کی طالبہ کے ساتھ جنسی تشدد کا واقعہ ہوا یا نہیں۔ ہاں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ریپ ہوا یا نہیں، متعلقہ طالبہ عمر بھر اس واقعہ کی قیمت چکائے گی۔
اگر تو یہ واقعہ نہیں ہوا،تو بھی متعلقہ طالبہ دو دفعہ ظلم کا شکار ہوئی۔ ایک مرتبہ سیاست دانوں (مسلم لیگ و تحریک انصاف) کے ہاتھوں،دوسری بار سوشل میڈیا کے ہاتھوں۔
اور اگر یہ واقعہ ہواہے تو متعلقہ طالبہ تین دفعہ ظلم کا شکار ہوئی۔پہلی مرتبہ، سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں۔دوسری مرتبہ سیاست دانوں (مسلم لیگ و تحریک انصاف) کے ہاتھوں،تیسری بار سوشل میڈیا کے ہاتھوں۔
اگر کسی کا نقصان ہوا تو اس بے گناہ طالبہ کا ہوا، سفید پوش گھروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا ہوا (جن کی گرفتاریاں ہوئیں،جن پر تشدد ہوا)، اس سیکیورٹی گارڈ کا ہوا جو جان سے گیا اور اس کے پس ماندگان عمر بھر اسے روئیں گے۔
فائدہ اٹھایا تو لاہور کے ایک ارب پتی،میاں عامر نے اٹھایا۔مریم نواز نے اٹھایا کہ میاں عامر جیسا ارب پتی اب مسلم لیگ کی جیب میں رہے گا۔ تحریک انصاف نے اٹھایا جسے موقع ملا کہ چند دن پھر ملک کو مفلوج رکھا تا کہ لوگ اپنے حقیقی مسائل کی بجائے اس بحث میں الجھے رہیں کہ عمران خان کو جیل میں ٹیلی ویژن ملنا چاہئے یا نہیں۔
ویلکم ٹو دی ایج آف پوسٹ ٹرتھ!
سچ لا پتہ ہے اور گمشدہ سچ کا شکار سفید پوش گھروں کی بیٹیاں اپنی عفت کی صورت میں گمشدہ سچ کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔
پوسٹ ٹرتھ ہے کیا؟
یہ اصطلاح 2016 میں عام ہوئی۔اس کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست،جھوٹ،نیم سچ اور بد زبانی پر مبنی سیاسی بیان بازی تھی۔ اس سال آکسفورڈ ڈکشنری نے پوسٹ ٹرتھ کو بطور ایک نئی اصطلاح اپنے تازہ شمارے میں شامل کرتے ہوئے اس کی تعریف یوں بیان کی کہ پوسٹ ٹرتھ ”ایسے حالات کی علامت ہے جن میں معروضی حقائق رائے عامہ بنانے میں کم اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ جذبات اور ذاتی عقائد زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں“۔
اگلے ہی سال برطانوی صحافی میتھیو ڈی انکونا (Mathew D’Ancona) نے ٹرمپ اور پوسٹ ٹرتھ پر کتاب لکھی جس میں پوسٹ ٹرتھ کی مندرجہ ذیل تعریف مقرر کی:
”پوسٹ ٹرتھ مندرجہ ذیل تجزئے کے سامنے سرنگوں ہونے کا نام ہے: معلومات کے فراہم کرنے والے اور معلومات وصول کرنے والے یہ تسلیم کرلیں کہ حقیقت انتہائی غیر مبہم ہے جبکہ بطور فرد و گروہ ہمارے تناظر (پرسپیکٹو)اتنے مختلف ہیں کہ سچ کی تلاش یا سچ کی بات کرنا بے معنی ہے۔ پوسٹ ٹرتھ کا نظریہ علم (epistemology)ہم پرزور دیتا ہے کہ حقیقتوں کو ایک ہی پیمانے پر نہیں ماپا جا سکتا۔عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ حقائق کی ناپ تول کی بجائے کسی کا حامی یا مخالف بن جائیں“۔
2018 میں پروفیسر مائک میکنٹائر نے پوسٹ ٹرتھ کی سیاست پر کتاب لکھی۔ انہوں نے پوسٹ ٹرتھ کی تعریف مقرر کرتے ہوئے لکھا:”اپنی خالص ترین شکل میں،پوسٹ ٹرتھ اس وقت وقوع پزیر ہوتا ہے جب کوئی یہ سمجھے کہ ہجوم کے رد عمل کی وجہ سے ایک جھوٹ سے جڑے حقائق بدل گئے ہیں“ [بہ الفاظ دیگر جب کوئی ہجوم کی وجہ سے سچ کو سچ ماننے سے انکار کر دے]۔
گذشتہ بارہ سال میں پوسٹ ٹرتھ پر درجنوں کتابیں اور تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔کئی ماہرین اس پر بحث کر چکے ہیں کہ پوسٹ ٹرتھ کیا ہے۔ پوسٹ ٹرتھ کی تعریف مقرر کرنے کی نت نئی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پوسٹ ٹرتھ افواہ، روایتی جھوٹ،آدھے سچ،پراپیگنڈے، یا جارج آوریل کی متعارف کرائی گئی اصطلاحات ڈبل سپیک، نیو سپیک سے کیسے مختلف ہے۔
سکالرز اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ پوسٹ ٹرتھ میں نئی بات یہ ہے کہ اس میں سوشل میڈیا کا عنصرشامل ہے۔ بعض اکیڈیمکس پراپیگنڈہ، افواہ اور سچ جھوٹ کی تعریف مقرر کرتے ہوئے بال کی کھال کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوسٹ ٹرتھ میں نئے پن کے حوالے سے دئے گئے اکثر دلائل قاری کو متاثر کرنے سے قاصر رہتے ہیں یا مزید گومگو کا شکار بنا دیتے ہیں۔
میرے خیال سے پوسٹ ٹرتھ اکیسویں صدی اور عہد حاضر کا ایک نیا سیاسی،سماجی و ثقافتی،مظہر ہے جس میں کچھ پرانا پن بھی شامل ہے۔ یہ افواہ، روایتی جھوٹ،آدھے سچ،پراپیگنڈے، ڈبل سپیک، نیو سپیک وغیرہ سے مختلف ہے۔اس کے مختلف ہونے کی وجہ سوشل میڈیا کا عنصر ہے (اس حد تک سکالرز کی بات درست ہے)۔ اس کے نئے پن اور دیگر پہلووں پر بات کرنے سے پہلے، بہتر ہو گا کہ پوسٹ ٹرتھ کی تعریف مقرر کر لی جائے۔
میری نظر میں پوسٹ ٹرتھ کا مطلب ہے سچ کو مختلف روایتی ہتھکنڈوں اور سوشل میڈیا کی مددسے متنازعہ بنا دینا!
پوسٹ ٹرتھ اس حد تک کوئی نئی چیز نہیں کہ سچ کو متنازعے بنانے کے لئے جھوٹ، مکر و فریب، افواہ سازی،آدھے سچ، پراپیگنڈے، سازشی نظریات،گیس لائٹنگ،اور ڈبل سپیک یا نیو سپیک جیسے روایتی ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں۔
اس کا نیا پن سوشل میڈیا پر گہرا انحصار ہے لیکن لبرل سوچ کے اکیڈیمکس جن کی کتابیں اکثر حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں (اوپر بھی ان میں سے دو معروف کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے)،سوشل میڈیا کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پوسٹ ٹرتھ کا نیا پن یہ نہیں کہ سوشل میڈیا بہت لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور بات تیزی سے پھیل جاتی ہے۔ تیزی یا سستی، زمانے کے لحاظ سے relative عمل ہیں۔ قرون وسطیٰ کے مقابلے پر،ہٹلر، سٹالن یا سی آئی اے اور ایم آئی فائیو بھی تیزی سے جھوٹ پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ ان کے پاس سوشل میڈیا نہیں تھا۔
اصل بات یہ ہے (جو مارکسزم کا چشمہ لگا کر ہی نظر آ سکتی ہے)کہ سوشل میڈیا نے میڈیا لیبر یا پراپیگنڈہ لیبر کی نوعیت بدل دی ہے۔ روایتی میڈیا (اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر، سینما وغیرہ) میں صرف وہی لوگ سچ یا جھوٹ پروڈیوس کرنے میں شامل ہو سکتے تھے جو اخباروں، چینلوں،سینما گھروں اور تھیٹر سے متعلقہ شعبوں یا دفتروں میں کام کرتے تھے۔افواہ سازی، پراپیگنڈہ وغیرہ کے لئے سکول، یونیورسٹی،منبر و محراب،وزارت اطلاعات وغیرہ ہوتے تھے۔وہاں بھی محدود لوگ کام کرتے تھے۔
سوشل میڈیا کا مطلب ہے کہ ہر اکاونٹ ہولڈر سوشل میڈیا کا صارف بھی ہے اور سوشل میڈیا کے لئے فری لیبر بھی کرتا ہے۔ اس کے لئے کسی دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔ جب جہاں وقت ملے، اپنی سوچ کے مطابق سچ جھوٹ افواہ سازی پراپیگنڈہ نیو سپیک ڈبل سپیک سازشی نظریہ پھیلانا شروع کر دو۔
دوسرا اہم نقطہ: سوشل میڈیا نے مدیر کی شکل میں موجود گیٹ کیپنگ کا ادارہ ختم کر دیا ہے۔ اخبار (چاہے وہ ہٹلر اور سٹالن کی ادارت ہی میں چلتے تھے)انہیں کچھ نہ کچھ خیال رکھنا پڑتا تھا کہ ان کی ساکھ برقرا ر رہے۔ وہ سچ سے ڈرتے تھے۔سوشل میڈیا صارف کو ساکھ کی فکر نہیں کیونکہ وہ نامعلوم اکاونٹ سے پوسٹ ٹرتھ پھیلا رہا ہے۔
پوسٹ ٹرتھ گویا اپنی نیچر میں،خاصیت میں روایتی میڈیا سے مختلف ہے۔ یہ ہے پوسٹ ٹرتھ کا نیا پن۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔