خبریں/تبصرے

فیض فیسٹیول: ’انقلابی صحافت‘ سے متعلق سیشن میں میڈیا سنسرشپ کی مذمت

لاہور (نمائندہ جدوجہد) الحمرا ہال میں منعقدہ 3 روزہ چھٹا فیض فیسٹیول اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ فیض فیسٹیول کے تیسرے روز ’دور حاضر میں انقلابی صحافت‘ کے عنوان سے سیشن منعقد کیا گیا تھا۔

اس سیشن کو معروف صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن رابعہ محمود نے کندکٹ کیا جبکہ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن حسین نقی، صحافی محمل سرفراز اور ادارتی رکن ’روزنامہ جدوجہد‘ حارث قدیر نے بطور پینلسٹ شرکت کی۔

شرکا سیشن نے موجودہ عہد میں صحافت کی بقا کو خطرات کا ذکر کرتے ہوئے یہ عیاں کرنے کی کوشش کی کہ انقلابی صحافت تو کجا یہاں صرف صحافت کرنا ہی اب خطروں سے کھیلنے کے مترادف ہو چکا ہے۔

کارپوریٹ کلچر اور ریاستی پابندیوں و قوانین کے نفاذ کے باعث سنسرشپ سے زیادہ سیلف سنسر شپ نے جگہ بنا لی ہے۔ ماضی میں ایک ریڈ لائن مقرر ہوتی تھی، جسے کم از کم صحافی ہی عبور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ تاہم اب یہ ہی واضح نہیں ہو رہا ہے کہ کیا لکھنا اور کیا بولنا ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اس لئے سیلف سنسرشپ کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔

حسین نقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پاکستان کی حیات میں ہی پاکستان میں میڈیا پر سنسرشپ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس کی شدت میں کمی یا تیزی آتی رہی ہے۔ تاہم پاکستان میں صحافت کبھی بھی آزادی سے پھل پھول نہیں سکی۔ کارپوریٹ کلچر نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔

محمل سرفراز نے اپنی گفتگو میں سنسرشپ کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے غیر مرئی قوتوں کی میڈیا اداروں پر چھاپ کا ذکر کیا۔ انہوں نے خواتین صحافیوں کو درپیش مشکلات اور آن لائن ہراسمنٹ کے مسئلے کو بھی سامنے لاتے ہوئے بتایا کہ بہت ساری خواتین صحافیوں نے محض اس لئے میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ جو خواتین صحافی کام کر بھی رہی ہیں وہ بہت زیادہ سیلف سنسرشپ کا شکار محض اس لئے بھی ہو رہی ہیں کہ اگر ان کی لکھی یا کہی گئی بات حکومتی جماعت کو بری لگی تو سرکاری سوشل میڈیا ’ٹرولز‘ ان کو ہراساں کریں گے۔ اس صورتحال نے خواتین صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی موجودگی محدود کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔

حارث قدیر نے اپنی گفتگو میں پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں صحافت کیلئے محدود مواقعوں کو زیر بحث لایا۔ انکا کہنا تھا کہ قومی سلامتی، کنٹرول لائن کی حساسیت سمیت مبینہ کالے قوانین کے نام پر صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے سے روکنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ موجودہ وقت نظام سرمایہ داری کا بحران اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اس کو اپنی ماضی کی لبرل جمہوری اقدار کے ذریعے چلانا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ہمیں فسطائی رجحانات طاقت میں آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

مودی حکومت نے بھی میڈیا کی زبان بندی کرنے کیلئے اسی طرح کے قوانین نافذ کئے ہیں، جیسے پاکستان میں نئی ترامیم کے ذریعے سے نافذ کئے جا رہے ہیں۔

تاہم انکا کہنا تھا کہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں صحافیوں کو علیحدگی پسندوں کا حمایتی قرار دیکر افسپا، یو اے پی اے، ٹاڈا سمیت دیگر کالے قوانین کے تحت کئی کئی ماہ تک حراست میں رکھنے اورپریس کلب تک کو بند کرنے جیسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں کنٹرول لائن سے متعلق کسی بھی طرح کی معلومات ’آئی ایس پی آر‘ کی مرضی کے بغیر جاری نہیں کی جا سکتی ہے۔ کئی کئی سال تک ڈیکلریشن محض اس لئے جاری نہیں کئے جاتے کہ درخواست گزار کا تعلق ماضی میں کسی ترقی پسند یا آزادی پسند تنظیم سے رہا ہو، یا ان تنظیموں کا ہمدرد سمجھا جاتا ہو۔

اس خطے کی حقیقی آوازوں کو مین سٹریم میڈیا پر دکھانے پر ایک غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کا بل سینیٹ میں پیش ہونے کے باوجود اس کی خبر پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کی بجائے صرف گلگت بلتستان کے ایک لوکل اخبار کی ہی زینت بن سکی۔

انکا کہنا تھا کہ پابندیاں درحقیقت ریاستی کمزوری کو عیاں کر رہی ہیں۔ زیادہ دیر تک جبر کے ذریعے سے معاشرے کو آمرانہ بنیادوں پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ جبر جتنا بڑھتا جائیگا، اس کے خلاف بغاوت بھی اسی شدت سے ابھر کے سامنے آئیگی۔

آخرمیں پینلسٹوں سے ہال میں موجود شرکا کی جانب سے سوالات بھی کئے گئے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts