لاہور (جدوجہد رپورٹ) 1990ء کی دہائی میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے کشمیری پنڈتوں (اعلیٰ ذات کے ہندوؤں) کے انخلا اور قتل عام پر بننے والی فلم ’کشمیر فائلز‘ نے بھارت میں پولرائزیشن کو ایک نئے طوفان کی شکل دے دی ہے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ اور ایک متنازعہ فلم ساز کے طور پر مشہور وویک اگنی ہوتری کی یہ فلم گزشتہ جمعہ کو ریلیز ہوئی ہے۔ جہاں ناقدین اس فلم کو ’Exploitative‘ قرار دیتے ہوئے اوسط ریویوز دے رہے ہیں، وہیں حکمران جماعت اس فلم کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی فلم پر تنقید کو سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
بی جے پی وزرا، انتہا پسند آر ایس ایس کے کارکنان اور بی جے پی کارکنان کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ اداکار بھی اس فلم کے دفاع میں بیانات جاری کرتے ہوئے اسے اصل تاریخ قرار دے رہے ہیں۔
’بی بی سی‘ کے مطابق یہ فلم ایک یونیورسٹی طالبعلم کی خیالی کہانی بیان کرتی ہے، جسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے کشمیری ہندو والدین کو اسلام پسند عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ تاہم اس کے دادا نے اسے یہ بتا رکھا ہوتا ہے کہ وہ کسی حادثے میں مارے گئے تھے۔ ناقدین کے مطابق یہ فلم حقائق اور اسلاموفوبک پروپیگنڈا میں فرق سے گریز کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔
تاہم وزیر اعظم نریندر مودی اور حکومتی وزرا نے فلم کی تعریف کی ہے۔ کئی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں نے اس فلم پر ٹیکس معاف کر دیا ہے اور ریاست مدھیہ پردیش میں پولیس کو یہ فلم دیکھنے کیلئے ایک دن کی چھٹی کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ 1990ء کی دہائی میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں بھارت کے خلاف مسلح بغاوت کے دوران عسکریت پسندوں نے کشمیری پنڈتوں کو حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس دوران بہت سے لوگ مارے گئے، اعداد و شمار پر ابھی تک تضادات موجود ہیں۔ تاہم ہزاروں کی تعداد میں کشمیری پنڈت گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے اور زیادہ تر تاحال واپس نہیں گئے۔
اس دوران وادی کشمیر میں فوج کو تعینات کر کے اسے گرفتاریوں، تفتیش، پوچھ گچھ سمیت وسیع اختیارات دیئے گئے۔ سکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کی ایک تاریخ رقم کی۔ ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے باوجود تاحال حالات کشیدہ ہی ہیں۔
بی جے پی اور نریندر مودی نے الیکشن مہم میں جموں کشمیر کو مرکزی حیثیت دی اور کشمیری پنڈتوں کی واپسی سمیت جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت کے نعرے کو مکمل کرنے کے اعلانات کر کے ہندو قوم پرستی کو ابھارا تھا۔ دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالتے ہی مودی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم بھی کر دیا تھا۔ تاہم تاحال کشمیری پنڈتوں کو دوبارہ آباد کرنے، جموں کشمیر کو ترقی دینے، بیروزگاری ختم کرنے اور امن لانے جیسے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔
کشمیری پنڈتوں سے متعلق دو سال قبل 2020ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’شکارا‘ کا استقبال حالیہ فلم سے بالکل برعکس دیکھنے کو ملا تھا۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے اس فلم کے بنانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں تاریخ کو مسخ کرنے کے الزامات عائد کر کے غدار قرار دیا گیا تھا۔
فلم ’شکارا‘ کے شریک لکھاری صحافی اور مصنف راہول پنڈتا کا اس بابت کہنا ہے کہ ”میرے خیال میں لوگ تمام حساسیت سے ہٹ کر اسے زیادہ سخت شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، ہم نے ایسا نہیں کیا۔“
انکا کہنا تھا کہ ”یہ سچائی ہے، لیکن آپ کشمیری پنڈتوں کی کہانی ان 30 سالوں کے دوران کشمیر کی کہانی بتائے بغیر نہیں بتا سکتے۔ شاید اسی لئے لوگوں نے بالی ووٹ میں یہ کہانی پہلے نہیں بتائی، کیونکہ کہانی کو اس پیچیدگی کے ساتھ سنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جس کی وجہ مستحق ہے۔“
واضح رہے کہ فلم ساز وویک اگنی ہوتری ایک متنازعہ اور ہندو قوم پرستوں کے حمایت یافتہ فلم ساز کے طورپر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی گزشتہ فلم ’دی داشقند فائلز‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مذکورہ فلم میں سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت میں ایک سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ لال بہادر شاستری کے پوتے نے وویک اتنی ہوتری کو قانونی نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
ان پر کام میں غلطیوں کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک عدالت نے انہیں ایئر فورس اسکواڈ رن لیڈر اور اس کی موت کی تصویر کشی کرنے والے مناظر کو شامل کرنے سے اس وقت روک دیا، جب مذکورہ سکواڈ رن لیڈر کی بیوی نے مناظر کو خلاف حقائق قرار دیکر دعویٰ دائر کیا تھا۔
فیکٹ چیکنگ پلیٹ فارم آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے فلم کی سکریننگ سے کئی ویڈیوز شیئر کیں جن میں سامعین کو مسلم مخالف نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر فلم کے حق اور مخالفت میں زبردست بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ فلم سازوں نے گزشتہ ہفتہ کو وزیر اعظم مودی سے بھی ملاقات کی اور بالی ووڈ کے کچھ اداکاروں نے بھی اس فلم کی حمایت میں بھرپور مہم چلائی ہے۔ ایک ٹی وی شو ’کامیڈی ود کپل شرما‘ کے خلاف بھی ٹویٹر پر ٹرینڈ چلائے گئے، کیونکہ اس شو کی انتظامیہ نے فلم کو پروموٹ کرنے سے مبینہ انکار کیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے دکھوں کو سامنے لانے کی بجائے کشمیری مسلمانوں کی دقیانوسی تصویر کشی کی گئی اور ان کے خلاف ایک پریشان کن پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
تاہم فلم کے مرکزی کردار انوپم کھیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ فلم بی جے پی حکومت میں ہی بن سکتی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سچ ہے۔ ہر فلم کا اپنا وقت ہوتا ہے۔‘