التمش تصدق
پاکستان میں ان دنوں تحریک عدم اعتماد کا چرچا کارپوریٹ میڈیا میں ایسے کیا جا رہا ہے جیسے 22 کروڑ عوام کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ سیاست دانوں، صحافیوں اور دانشوروں کی ساری بحث اس ایک نقطے کے گرد گھوم رہی ہے، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گی یا ناکام، عمران خان وزیر اعظم رہے گا یا نہیں، اپوزشن اتحاد کے پاس کتنے ممبران ہیں اور حکمران جماعت کے پاس کتنے ہیں۔ اس بات پر حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں محنت کش عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں آئیں گی۔ حکومت اگر عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، تو اپوزیشن کے پاس عوامی مسائل کے حل کا کیا پروگرام ہے؟
حکمران جماعت اور اپوزیشن اتحاد دونوں کے پاس ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے، کردار کشی کرنے اور بہتان تراشی کے سوا محنت کش عوام کو درپیش مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لا علاجی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ کسی میں یہ جرات نہیں ہے جو آئی ایم ایف کی پالیسوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرے اور ان کے قرضے ضبط کرنے کی بات کر سکے۔ اپوزیشن اتحاد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہی تو قیامت آ جائے گی۔ حکمران جماعت قومی سلامتی اور خود مختاری کا پرانا چورن فروخت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہی ہے۔
اپوزیشن پر حکومتی ممبران پارلیمنٹ اور اتحادیوں کی وفاداریاں خریدنے کا الزام لگایا جا رہا ہے اور خود حکمران جماعت وفاداریاں تبدیل نہ کرنے کی شرط پر ان کو اہم عہدوں اور دیگر مراعات کی پیش کش کر رہی ہے۔ یہ وہی ممبران پارلیمنٹ ہیں جن کی وفاداریاں خریدنے پر حکمران جماعت جشن منا رہی تھی اور اسے اپنی فتح قرار دے رہی تھی۔ پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہاں سیاست کے اس ڈرامے میں ہر 5 سال کے بعد مرکزی کردار کے علاوہ کچھ نہیں بدلتا ہے۔ سیاسی منظر نامے میں زیادہ تر وہی کردار پارٹیاں بدل بدل کر اقتدار میں آتے ہیں جن کے آباؤ اجداد کو برطانوی سامراج نے جاگیریں دی تھیں۔ وہی سیاسی اشرافیہ جو قیام پاکستان کے بعد صنعت سے بھی وابسطہ ہو چکی ہے، آج تک اس ملک میں سامراجی طاقتوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہے۔
تیزی سے ان دنوں حکومت اور اپوزیشن اتحاد کی آپسی دشمنی، ملک کی محبت اور عوام کی ہمدردی اچانک جاگ گئی ہے، جنہوں نے کچھ عرصہ قبل سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے نام پر اسے براہ راست سامراجی کنٹرول میں دے دیا۔ مملکت خدا داد پاکستان کی خود مختاری کا یہ عالم ہے کہ یہ حکمران اب کرنسی نوٹ بھی اپنی مرضی سے نہیں چھاپ سکتے ہیں۔ سینٹ میں حکمران جماعت اقلیت کے باوجود تمام عوام دشمن قوانین اپوزیشن کی مدد سے منظور کرتی رہی ہے، اس بات سے ان حکمرانوں کی مصنوعی دشمنی کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ اس وقت مختلف ناموں سے کام کرنے والی ان پارٹیوں میں نام اور جھنڈے کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام پارٹیاں سامراجی اداروں کی ملازمت اور فوجی اشرافیہ کی وفاداری حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ اقتدار سے بے دخلی کے نتیجے میں ہی حکمران طبقے کے ایک دھڑے کو انسانی حقوق اور جمہوری آزادیاں یاد آتی ہیں۔ مقتدر قوتیں جیسے ہی اقتدار کی یقین دہانی کرواتی ہیں، جمہوریت دشمن ادارے مقدس ادروں میں بدل جاتے ہیں۔ ووٹ کی عزت مانگنے والے ووٹ کو اپنے ہی پیروں تلے روند دیتے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی پسماندگی اور مخصوص طبقاتی کردار کی وجہ سے جمہوری حقوق کی لڑائی کو ایک حد سے آگے بڑھانے کے قابل نہیں ہے۔
اس نظام میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام، عمران خان وزیر اعظم ہو یا شہباز شریف یا کوئی اور، نظام کا بحران اتنا شدید ہے کہ ہر آنے والا نیا حکمران پرانے سے زیادہ عوام دشمن ہو گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق عام عوام پر ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ بجلی، پیٹرولیم مصنوعات سمیت اشیا خورد و نوش کی قیمتیں بڑھیں گی۔ قومی اداروں کی نجکاری کے حملوں میں تیزی آئے گی۔ ریاستی جبر میں اضافہ ہو گا اور جمہوری آزادیوں پر مزید پابندیاں نافذ کی جائیں گی۔ اگر اپوزیشن اتحاد عدم اعتماد کی تحریک میں کامیاب ہو کر ایک سال کے لیے اقتدار حاصل کرتا ہے، جس کے واضح امکانات موجود ہیں، توایک سال میں ان کی مقبولیت اتنی کم ہو گی جتنی تبدیلی سرکار کی تین سال میں ہوئی ہے۔ سیاسی اور سماجی انتشار کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گا۔
حکمران طبقے کی اس آپسی لڑائی کے نتیجے میں حکمران طبقے کی سیاست اور ریاست کا کردا رتیزی سے بے نقاب ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کی اس لڑائی سے محنت کش عوام کی اکثریت لا تعلق ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے جاری حکمران طبقے کا یہ تماشا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ وہ بحیثیت مجموعی سرمایہ داروں کی اس سیاست پر عدم اعتماد کر رہی ہے، جس کا عملی اظہار بھی جلد کر سکتی ہے۔ محنت کشوں نے عدم اعتماد کی تحریک کسی پارلیمنٹ میں نہیں پیش کرنی وہ یہ تحریک سڑکوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں پیش کریں گے۔ وہ عدم اعتماد کسی ایک پارٹی یا فرد کے خلاف نہیں ہو گی بلکہ اس نظام اور اس سرمایہ دار حکمران طبقے کے خلاف ہو گی، جس نے 95 فیصد محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے مینار کھڑے کیے ہیں۔ یہ عدم اعتماد اس نظام کو دفن کر دے گی، جس نے انہیں بھوک، بیماری، بیروزگاری اور ذلت کے سوا کچھ نہ دیا ہے۔