فوزیہ افضل خان
ترجمہ: قیصرعباس
سارہ سلہری گڈئیر، جن کا خاندانی نام سارہ سلہری تھا، امریکی ریاست واشنگٹن میں گزشتہ دنوں انتقال کر گئیں۔ وہ پاکستان ٹائمز کے مدیر زیڈاے سلہری کی چار بیٹیوں میں سے ایک تھیں اور ان کاشمار امریکہ میں انگریزی ادبیات کے منفر د دانشوروں میں ہوتاہے۔ اگرچہ میں انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتی تھی لیکن میرا تعلق بھی یونیوسٹی کی سطح پراسی شعبے سے ہے اور اس حوالے سے وہ ہمیشہ میرے لئے قابل احترام رہیں گی۔
وہ ان پاکستانی نژاد امریکی دانشوروں کی صف اؤل میں شامل تھیں جنہیں ’Yale University‘ جیسے تعلیمی ادارے میں پڑھانے کا موقع ملا۔ وہ حقو ق نسواں کی علم بردار اور انگریزی ادبیات کی پروفیسر کے حوالے سے ہم جیسے نو آموز لوگوں کے لئے مشعل راہ تھیں۔
میں جن دنوں ٹفٹ یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی مقالے کی تحقیق میں مصروف تھی، انہوں نے مجھے اپنی کلاس’تیسری دنیا کا ادب‘ میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ اسی کی دہائی میں یہ بات میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ ’Yale‘ جیسی قدامت پسند یونیورسٹی میں اس قسم کاکوئی کورس بھی پڑھا یا جا سکتا ہے۔ دراصل وہ اس طرح کی نصابی سرگرمیوں کے ذریعے انگریزی ادب میں ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھ رہی تھیں جسے آگے چل کر ’Postcolonial Literature‘ یا ’ادب بعد از نوآبادیات‘ کانام دیاگیا۔ کلاس کے دوسرے طالب علموں کی طرح میں بھی ان کے لیکچر کے سحر میں گرفتار تھی جس کا ہر لفظ ان کی ذہانت، مرکزی خیال پر نظر اور زبان دانی کامنہ بولتا ثبوت ہوتا تھا۔
چند برسوں بعد میں نے نیو جرسی کے مونٹ کلیر کالج میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور اسی دوران ان کی سرگزشت بھی شائع ہوئی۔ ان کی تعلیمی زندگی کا آغاز میری جنم بھومی لاہور سے ہوا تھا اور انہوں نے بھی میری طرح کنیرڈ کالج میں تعلیم حاصل کی لیکن تقریبا آدھی دہا ئی پہلے۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ جب وہ امریکہ میں اپنی ملازمت میں مستقل بھی نہیں ہوئی تھیں، انہوں نے کسی ادبی موضوع کے بجائے اپنی یادداشت لکھنے کی ٹھان لی اور وہ بھی ’Yale‘ جیسی یونیورسٹی میں رہ کر۔ ان کی فطرت بھی یہی تھی کہ ایک نئی اورجرات مندانہ سوچ کے ساتھ فکر کے نئے زاویے مقرر کئے جائیں۔ میں نے بھی ان سے یہی سیکھا کہ کس طرح تعلیمی اداروں کی پابندیوں اور روایتوں کوچیلنج کرتے ہوئے نئی ر اہیں نکالی جائیں۔
ان کی یادداشتوں کا مجموعہ ’Meatless Days‘ متن اور انداز بیان کے نئے اسالیب کی نشاندہی کر رہا تھا، ان دنوں میں جب اس قسم کی یادداشتوں کو سنجیدہ ادبی نگارشات تسلیم کرنے کا رواج اتنا عام نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ذہین قلم کار کی طرح صنفی مسائل کو بڑی مہارت سے سیاسی بحث کا حصہ بنایا اور ہم عصر رویوں کا دامن بھی سنبھالے رکھااور وہ بھی اس طرح کہ ان کی تحریروں کا ہر لفظ ایک نگینے کی طرح عبارت میں جڑا نظر آتا ہے۔ انہوں نے تحریک نسواں اور ادبی تنقید کو یک جان کرنے کاکام بخوبی سرانجام دیاجسے آگے چل کر’بعد از نو آبادیات صنفی ثقافت‘ (پوسٹ کلونیل فیمنسٹ کلچرل اسٹدیز) کا نام دیا گیا۔
چندبرسوں بعد ہی ان کی نئی (اور آخری) تصنیف ’The Rhetoric of English India‘ بھی شائع ہوئی۔ ایک بار پھر ان کی کتاب نے جدتِ خیال اور متون کے انتخاب پر خاصی توجہ حاصل کی۔ ان کی تصا نیف نے ہم جیسے لکھاریوں کو، جو اب تک ایڈورڈ سعید جیسے مرد دانشوروں کی طرف دیکھ رہے تھے، ایک خاتون محقق سے رجوع کرنے کا موقع دیا۔ ان کی کتابیں اور ’Women Skin Deep: Feminism and the Postcolonial Condition‘ جیسے مضامین نے ہمیں بھی حوصلہ دیا کہ نو آبادیات کے بعدلکھے گئے ادب میں ان پہلوؤں پر تنقیدی نظر ڈالیں جہاں صنفی تعصب سے گریز کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ اس طرح سارہ نے اپنے قارئین کو ہمیشہ غوروفکرکرنے اور وقت کے بااثر رویوں کوتشکیک کی نگاہوں سے دیکھنے کا ڈھنگ دیا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کی شخصیت اور نگارشات میں کسی بے چین روح کا ہاتھ تھا جوہمہ وقت ادبیات کے پرانے ستونوں کو ڈھانے میں مصروف تھی۔
ان کی ادبی کاوشوں سے قطع نظر، جنہیں یاد رکھنا اور سراہنا بہت ضروری ہے، میرے لئے وہ ہمیشہ کنیرڈ کالج کی یادوں کا حصہ رہیں گی جو ہم دونوں کی درس گاہ تھی۔ اس زمانے میں انہوں نے کالج کے سٹیج پرزار نکولس دوئم کی بیٹی ’Grand Duchess Anastasia‘ کا کردار ادا کیا تھا جس کی ہدایت کار پیرن کوپر تھیں۔ میں اس وقت کانونٹ آف جیزیز اینڈ میری کی طالبہ تھی اور ڈرامہ دیکھتے ہی اس کردار کے سحر میں بری طرح گرفتار ہو گئی تھی۔ بلاشبہ ان کے شاہانہ انداز او ر خوبصورت اداکاری نے اس کردار کو امر کردیا تھا۔ اس کھیل کی ایک اور منجھی ہوئی اداکارہ روبینہ سہگل تھیں جن کا بھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ میں اور سارہ تو امریکہ آ گئے تھے جب کہ روبینہ سہگل نے پاکستان میں تحریک نسواں کی کارکن اور دانشور کی حیثیت سے خاصا نام کمایا اور تعلیمی سطح پر صنفی مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب جب کہ تحریک نسواں کی یہ دونوں علم بردار، دانشور اور آرٹسٹ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، ان کی یادوں کو زندہ رکھنا میرا فرض بھی ہے اور ضروری بھی۔
اس کردار کی طرح جو انہوں نے کالج کے سٹیج پر خوبصورتی سے نبھا یا، سارہ سلہری کو ایک باوقار اور بے خوف دانشور کے طورپر یاد رکھا جائے گا جس نے زندگی کے نشیب وفراز کامقابلہ دلیری کے ساتھ کیا۔
بشکریہ فرائیڈے ٹائمز