اختر چوہدری
پھر سے شہر خوباں میں بازار ہوس گرم ہے۔ یار لوگوں نے ایمان، ضمیر، احساسِ ذمہ داری، جبہ و دستار، سب بیچ بازار رکھ دیے ہیں۔ جس کو جو چاہیے خرید لے۔ بس بولی لگے گی۔ آخر کو جب عزتِ اسلاف بیچنا ہی ٹھہرا تو دام تو کام کے ملیں۔ سر ننگا ہی کرنا ہے تو کاسہ تو پْر ہو۔ خریدو! کیا چاہیے؟
وفاداری چاہیے؟ ملے گی۔ بس وقتی ہو گی۔ ہم پکے کاغذ پر لکھنے والے نہیں۔ آج تمہیں بیچیں، کل کسی اور خریدار کو۔
اخلاق خریدنا ہے؟ ملے گا۔ کس کو گالی دلوانا ہے؟ کسی کی پگڑی اچھالیں؟ کس پر بہتان لگانا ہے؟ کیاجھوٹی قسم کھانا ہے؟ جھوٹی گواہی دینا ہے؟ ہم ہیں ناں۔ بس تم بولی لگاؤ۔ بازار گرم ہے اور بھی خریدارہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور خرید لے اور ہم تمہارے خلاف گواہی دے دیں، خرید لو۔ پر بولی جیتنا ہو گی۔ مال لگانا ہو گا۔
کیا کہا، احساسِ ذمہ داری خریدنا ہے؟ ہاں خریدو۔ ملے گا۔ تم سے پہلے بھی ہم یہ سودا کر چکے ہیں۔ کئی بار کا تجربہ ہے۔ پکے بیوپاری ہیں۔ ایک بار چادرِ زہرا بیچی تھی، پھر ٹیپو کی شمشیر۔ وطن کا ٹکڑا بھی بیچا تھا، ہم وطنوں کا لہو بھی۔ بھری عدالت میں ملک کا مستقبل بیچا تھا اور پس دیوار آئین بھی۔ ہم پکے ساہوکار ہیں، کچے کھلاڑی نہیں۔
کہو ایمان چاہیے؟ ہاں ملے گا؟ کچا پکا جیسا ہے، بیچیں گے۔ اب تم اس کی جانچ کرنے کے تو ہو نہیں۔ تمہارا اپنا ایمان بکاؤ مال ہے۔ کل ہم نے تمہیں بھی اسی ساہوکاری میں دیکھا تھا۔ تب تم بازارو تھے، خریدار کوئی اور تھا۔ آج تم خریدار ہو، ہم ٹھیلہ لگائے بیٹھے ہیں۔ بس دھوپ چھاؤں کا فرق ہے۔ کل تم ادھر، آج ہم! کل تم گلی گلی دھمال ڈال رہے تھے، آج ہم ڈفلی والوں کی دھن پر ناچ رہے ہیں۔
آؤ مل کر ساہوکاری کریں۔ تم پرچم بیچو، ہم سرحدیں۔ ہم دھرتی کا آنچل بیچتے ہیں، تم مٹی کا مان بیچو۔ تم گلی گلی آنے والی نسلوں کا مستقبل بیچو، ہم کوچہ بہ کوچہ اسلاف کی قبور بیچتے ہیں۔ آؤ عدل بیچیں، ایمان بیچیں۔ ہے کوئی جو ہماری متعفن روح خریدے؟ ہم بکاؤ ہیں۔ منڈی لگی ہے۔